Maktaba Wahhabi

115 - 315
اس آیت میں مخاطب مرد وعورت دونوں ہی ہیں۔ اسی طرح ایک حدیث ملاحظہ کیجیے۔ "لاَ تَدْخُلُوا الجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلا تُؤمِنوا حَتى تحَابُّوا، أَوَلا أدُلُّكُمْ عَلَى شَئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحاَبَبْتُم؟ أفْشُوا السَّلام بَيْنَكُم" (مسلم) ’’قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ۔ اور اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم کرو گے تو آپس میں محبت بڑھے گی اپنے درمیان سلام کو رواج دو۔‘‘ اس حدیث میں بھی مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس کے مخاطب صرف مرد ہیں عورتیں نہیں ہیں۔ اور نہ قرآن و حدیث میں ہی ایسی دلیل ملتی ہے کہ مرد عورتوں کو سلام نہیں کر سکتے یا عورتیں مردوں کے سلام کا جواب نہیں دے سکتیں۔ بلکہ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مردوں نے عورتوں کو سلام کیا ہے اور عورتوں نے ان کے سلام کا جواب دیا ہے اس لیے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا جواب دینا اسلامی آداب میں شامل ہے۔ ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن حضرت اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائیں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہارہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پردہ کر رکھا تھا۔ اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کون آئی ہے؟ اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ میں اُ م ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا
Flag Counter