Maktaba Wahhabi

105 - 315
ہوا کہ لبھانے والے انداز میں اور پھوہڑ طریقے سے بات چیت کرنے کی ممانعت ہے۔ اور بھلے طریقے سے بات چیت کرنے کی اجازت ہے۔ اگر عورت کی آوازپردہ ہوتی تو اللہ کبھی بات چیت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی آواز پردہ نہیں ہے۔ آپ نے جس حدیث کا اپنے سوال میں حوالہ دیا ہے اس حدیث کو سمجھنے میں بھی لوگوں نے زبردست غلطی کی ہے وہ حدیث ہے: "مَا تركْتُ بعْدِي فِتْنَةً هِي أَضَرُّ عَلَى الرِّجالِ مِنَ النِّسَاءِ" ’’ میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ ضرررساں فتنہ نہیں چھوڑا۔‘‘ انھوں نے یہاں لفظ فتنہ سے یہ مفہوم اخذ کر لیا کہ عورتیں مصیبت اور فتنہ کی جڑہیں یا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فقرو فاقہ اور بیماری کو فتنہ قراردے کر ان سے پناہ مانگی ہے عورتیں بھی کچھ اسی قسم کا فتنہ ہیں۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ لفظ فتنہ عربی زبان میں آزمائش اور امتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی وہ چیز جس کے ذریعے سے کسی کی آزمائش ہو، یہ آزمائش کبھی بری چیزوں کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے ذریعے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی پریشانیوں میں مبتلا کر کے آزماتا ہے اور کبھی نعمتیں عطا کر کے آزماتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے: "وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ " (الانبیاء:35۔ ) ’’اور ہم اچھے اور برے دونوں سے تمہاری آزمائشیں کرتے ہیں۔‘‘ اس لیے عربی زبان میں لفظ فتنہ کبھی بری چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے لیے مثلاً مال اور اولاد اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی فتنہ قراردیا ہے۔ "إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ" (التغابن:15)
Flag Counter