Maktaba Wahhabi

102 - 315
ماں کی حیثیت سے اسلام نے عورت کو جو عزت بخشی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اسلام نے ماں کے پیروں تلے جنت قراردے کر اسے جو بلند مقام عطا کیا ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ بیوی کی حیثیت سے اس طرح عزت بخشی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي" (ترمذی) ’’ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہے۔ اور میں اپنی بیوی کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض سخت مزاج اور تشدد پسند مسلمان عورتوں کے معاملے میں بڑا ظلم کرتے ہیں۔ انھوں نے عورتوں کو ان حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے جنھیں اسلامی شریعت نے انھیں ایک انسان اور ایک عورت کی حیثیت سے عطا کیا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ساری حق تلفیاں اور زیادتیاں دین اور مذہب کے نام پر ہوتی ہیں حالانکہ ہمارا دین اس طرح کی حق تلفیوں سے پاک ہے۔ عورتوں کو کم عقل ثابت کرنے کے لیے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ من گھڑت حدیث منسوب کردی۔ "شاوروهن وخالفوهن"’’ان عورتوں سے مشورہ کرو لیکن ان کے مشورے پر عمل نہ کرو۔‘‘ یہ واضح طور پر ایک من گھڑت اور بے بنیاد حدیث ہے کیوں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے اور ان مشوروں پر عمل بھی کیا کرتے تھے۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مشورہ کیا اور ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں خیرو برکت عطا کی۔ انھی حضرات نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ قول غلط طور پر منسوب کر دیا: "المرأة شرّ كلّها، وشرّ ما فيها: أنه لا بدّ منها" ’’ عورت مکمل برائی ہے اور اس کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس کی برائی سے مفرنہیں ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اس قول کا انتساب بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیوں کہ یہ
Flag Counter