Maktaba Wahhabi

623 - 665
خوش ہونا چاہیے۔بسا اوقات شاعری، نثر سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔ لیکن شاعری ہو، تک بندی نہ ہو۔ مدینہ یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبا ءمیں بھی بعض حضرات عربی، اُردو یا کسی اور زبان کے شاعر ہونگے۔ پھر خود مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں اب تک ہزاروں لاکھوں شعراء پیدا ہو چکے ہیں۔ بے شمار محدثین بہت بڑے شاعر بھی تھے اور ان کے اشعار کتابوں میں منقول ہیں۔ ان میں سے کبھی کسی نے ترک شعر گوئی دعا نہیں کی۔ شعر گوئی سے نہ طلب علم کی سر گرمیاں ماند پڑتی ہیں اور نہ اس سے نیکی کا جذبہ مجروح ہوتا ہے۔ بہر حال ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ ہمارے ممدوح مولانا صلاح الدین مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے بہت بیتاب تھے اور اس کے لیے ان کے نزدیک جامعہ سلفیہ (بنارس) میں داخل ہونا اور وہاں تعلیم حاصل کرنا ضروری تھا اس لیے کہ اس وقت ہندوستانی طلباء کے لیے مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کا راستہ یہیں سے نکلتا تھا۔ چنانچہ انھیں جامعہ سلفیہ میں آسانی سے داخلہ مل گیا اور یہاں انھوں نے چار سال میں عالمیت کا اور دو سال میں فضیلت کا کورس مکمل کیا۔ مدت چھ سال ہوئی جو بنارس کی جامعہ سلفیہ میں بے حد محنت کرتے ہوئے گزری۔ اب ان کی مراد بر آئی اور انھیں جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ انھیں”کلیۃ الحدیث الشریف والدراسات الاسلامیہ“ میں داخل کیا گیا۔ یہ چار سال کا کورس تھا جس کی انھوں نے تکمیل کی اور ہمیشہ کلاس میں پہلی یا دوسری پوزیشن حاصل ہوتی رہی۔ آخری سال میں انھیں میرٹ کی بنا پر ایم اے میں داخلہ مل جانا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں مل سکا۔ اس کے بعدمکہ مکرمہ گئے اور جامعہ اُم القریٰ میں ایم اے میں داخلے کی کوشش کی۔ لیکن وہاں بھی داخلے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی۔ مدینہ یونیورسٹی میں مولانا صلاح الدین مقبول احمد نے جن اساتذہ سے استفادہ کیا، ان میں سے چند حضرات کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ 1۔۔۔مولانا عبدالغفار حسن (پاکستان ) 2۔۔۔شیخ رنیع بن ہادی المدخلی(سعودی عرب) 3۔۔۔ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن الاعظمی (سعودی عرب) 4۔۔۔ڈاکٹر محمد علی طہٰ ریان (مصر) 5۔۔۔ڈاکٹر البشیر البشیر(سوڈان) 6۔۔۔ڈاکٹر عبدالفتاح سلامہ (مصر)
Flag Counter