Maktaba Wahhabi

109 - 665
مولانا شمس الحق عظیم آبادی برصغیر کے لاتعداد اصحاب علم نے انتہائی اہتمام کے ساتھ حدیث رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)کی خدمت کی اور کر رہے ہیں۔ کسی نے درس و تدریس کےذریعے یہ فریضہ سر انجام دینے کا عزم کیا، کسی نے مختلف کتب حدیث کی شروح و تعلیقات کو ضبط تحریر میں لانے کی طرف عنان توجہ مبذول کی، کسی نے کسی کتاب کے اُرود یا کسی اور زبان میں ترجمے کو ضروری قراردیا، کسی صاحب نے تخریج کو موضوع تحقیق ٹھہرایا اورکسی نے اقسام حدیث کی وضاحت کی۔ خدمت حدیث کے یہ تمام طریقے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اہل حدیث علمائے کرام نے بالخصوص اس عظیم کام کی طرف اعتنا کیا اوران کی تگ و تاز سے علوم حدیث کی اشاعت کا دائرہ بے حد وسیع ہوا، اور پھر معاملہ یہاں تک بڑھا کہ اس سلسلے میں ان کے عزم و ہمت کی وجہ سے اس نے ایک بہت بڑی تحریک کی شکل اختیار کر لی، جسے شیخ محمد منیر د مشقی ”نہضہ عظیم“سے تعبیر کرتے ہیں۔اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مصر کے چودھویں صدی ہجری کے ممتاز مصنف و محقق علامہ سید رشید رضا بڑی وضاحت سے تحریر فرماتے ہیں: (ولولا عناية إخواننا علماء الهند بعلوم الحديث في هذا العصر، لقضي عليها بالزوال من أمصار الشرق، فقد ضعفت في مصر والشام والعراق والحجاز منذ القرن العاشر للهجرة حتى بلغت منتهى . الضعف في أوائل هذا القرن الرابع عشر)[1] ”یعنی ہندوستان کے علمائے اہل حدیث نے علوم حدیث کے تحفظ کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول کی۔ اگر اس دور میں ہمارے یہ بھائی ایسا نہ کرتے تو مشرقی ممالک سے یہ علم ختم ہوجاتا۔ مصر، شام، عراق اور حجاز میں تو یہ علم دسویں صدی ہجری سے روبہ زوال ہوگیا تھا اور چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں تو زوال کی انتہا تک پہنچ گیا تھا۔ اعترافِ حقیقت ہندوستان یعنی برصغیر کے اہل علم نے نشر واشاعت حدیث کے لیے جو بھرپور کوششیں کی، ان کا ذکر علامہ رشید رضا کے علاوہ عرب ممالک کے بعض اور اصحاب تحقیق نے بھی کیا ہے۔خود ہندوستان کے معروف حنفی عالم مولانا مناظر احسن گیلانی نے صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ اس سلسلے میں بنیادی
Flag Counter