Maktaba Wahhabi

259 - 665
نواب سید صدیق حسن خاں حضرت نواب سید صدیق حسن خاں والی بھوپال کا تذکرہ ہم اپنی کتاب”برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن“میں کر چکے ہیں اور موضوع کی مناسبت سے قرآن سے متعلق ان کی تصانیف کی تفصیل اُس کتاب میں بیان کردی گئی ہے۔ قرآن کے رفیع الشان موضوع پر انھوں نے سات کتابیں تصنیف کیں، جن میں بعض عربی میں ہیں، بعض فارسی میں اور بعض اُردو زبان میں۔۔۔۔!مجموعی طور سے یہ سات کتابیں دس ہزار صفحات پر محیط ہیں۔ بھوپال کے بارے میں اہم تاریخی معلومات یہاں ہم کچھ زیادہ تفصیل سے نواب صاحب کی ان تصانیف کا تذکر کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے حدیث رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے روح پرور موضوع پر تصنیف فرمائیں۔ لیکن اس سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ریاست بھوپال کے بارے میں قارئین کرام کو ضروری معلومات بہم پہنچائی جائیں۔ چنانچہ مندرجہ تحت سطور میں اختصار کے ساتھ اس ریاست کے ابتدائی دور کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔اس موضو ع پر جن کتابوں میں کسی قدر وضاحت سے لکھا گیا ہے، وہ ہیں بیگمات بھوپال، اُردو کی ترقی میں بھوپال کا حصہ، بھوپال گزیٹر اور حیات سکندری وغیرہ۔ لیکن ان کتابوں کے بعد جو کتاب شائع ہوئی ہے، وہ ہے” حضرت نواب سید صدیق حسن خاں۔“یہ دراصل نواب صاحب کے خاندان کی اور بھوپال ہی رہنے والی ایک لائق احترام خاتون رضیہ حامد کا مقالہ ہے جو انھوں نے نواب صاحب کے متعلق لکھا ہے۔ اس پر بھوپال یونیورسٹی کی طرف سے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی ہے۔ یہ مقالہ فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی اتر پردیش (انڈیا) کے مالی تعاون سے 1983؁ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا ہے۔ نواب صاحب پر ایک ضخیم تحقیقی مقالہ اس سے قبل عربی زبان میں سید اجتمی ندوی نے لکھا تھا، جس پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی طرف سے انھیں ڈاکٹریٹ کی سند ملی۔ پشاوریونیورسٹی کے پروفیسر سعید اللہ نے بھی کیمبرج یونیورسٹی سے نواب صاحب پر انگریزی میں مقالہ لکھا تھا جو چھپ چکا ہے۔ لیکن یہاں ہم بھوپال کی قدیم تاریخ کے سلسلے میں ڈاکٹر رضیہ حامد کی کتاب ”حضرت نواب سید صدیق حسن خاں“سے زیادہ استفادہ کر رہے ہیں۔ ریاست بھوپال کا سردار دوست محمد خاں تھا جو 1696؁ء میں افغانستان سے ہندوستان آیا تھا۔ ابتدا میں وہ اورنگ زیب عالم گیر کی فوج میں ملازم ہوا۔ لیکن اورنگ زیب کی وفات کے بعد فوج
Flag Counter