Maktaba Wahhabi

653 - 665
ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد برصغیر کے اہل حدیث اصحاب علم کثیر تعداد میں تحریری، خطابتی اور تدریسی صورت میں مختلف ملکوں میں قرآن و حدیث کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی خدمت کا یہ سلسلہ شرق اوسط کے ملکوں میں بھی جاری ہے اور یورپ کے ملکوں میں بھی۔ ان میں سے بعض خادمین قرآن و حدیث کا تذکرہ میں اپنی کتاب ”قافلہ حدیث“ میں کر چکا ہوں، بعض کا”برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن“میں کیا جا چکا ہے اور بعض کا زیر مطالعہ کتاب ”دبستان حدیث“میں کیا گیا ہے۔قرآن و حدیث کے ان خوش بخت مبلغین کی جماعت کے ایک لائق احترام رکن حافظ اسحاق زاہد ہیں جو آج کل کویت میں تدریس و خطابت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ پورا قد، گندمی رنگ، مردانہ وجاہت کا خوبصورت پیکر، خطیبانہ آواز، کتابی چہرہ، خوش گفتار، خوش اطوار۔ سنت کے مطابق داڑھی، جو پہلے بالکل سیاہ تھی۔اب عمر چالیس کو پہنچ گئی ہے تو کچھ سفید بال بھی اپنا جلوہ دکھانے لگے ہیں۔ حافظ اسحاق زاہد10۔مارچ1968؁ءکو ضلع ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ والد کا اسم گرامی مولانا غلام مرتضیٰ اور چچا کا مولانا غلام مصطفیٰ تھا۔دونوں بھائیوں کا شمار اپنے علاقے کے ارباب علم میں ہوتا تھا۔ حافظ محمد اسحاق زاہد کو ابتدائی تعلیم کے لیے اپنے گاؤں کی مسجد میں قاری محمد طاہر کی شاگردی میں دیا گیا۔ قاری صاحب سے انھوں نے قرآن مجید حفظ کیا۔ اس کے بعد پرائمری سکول میں پانچویں جماعت میں داخل کرائے گئے۔ حصول علم کے شائق اس ذہین بچے نے چھ ماہ میں پرائمری کا امتحان نمایاں پوزیشن میں پاس کیا۔ اس کے بعد والد گرامی اور چچا جان سے صرف نحو اور فارسی کی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں اور حصول علم کی راہ پر قدم زن ہوگئے۔ پھر عمر کے سن وصال میں کچھ اضافہ ہوا تو شجاع آباد کے ایک دینی مدرسے میں داخلہ لیا۔ اس مدرسے کا نام اشرف العلوم تھا۔ اس مدرسے میں ایک سال رہے اور صرف و نحو کی بعض کتابیں وہاں کے اساتذہ سے پڑھیں۔ اب 1982؁ءآگیا تھا اور وہ چودہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے لاہور کا عزم کیا اور ماڈل ٹاؤن کے مدرسہ رحمانیہ میں داخلہ لیا جو حافظ عبدالرحمٰن مدنی نے جاری کیا تھا۔اس مدرسے
Flag Counter