Maktaba Wahhabi

394 - 665
حافظ عبدالغفورجہلمی حافظ عبدالغفور سے ملاقات کے اوّلیں نقوش افسوس ہے لوحِ ذہن پر محفوظ نہیں رہے۔پہلے پہل ان سے کب ہاتھ جڑا اور کس وقت اور کہاں ان سے ہم کلام وہم سلام ہونے کا آغاز ہوا، اس کی کوئی تصویر بار بار سوچنے اور دور تک نظر دوڑانے کے باوجود آنکھوں کے سامنے نہیں آرہی۔خیر کوئی بات نہیں۔اگراسے ذہن محفوظ نہیں رکھ سکا تو کیا مضائقہ ہے۔بعض دفعہ انسان کو خود اپنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہے اور کن مشاغل میں گھرا ہوا ہے۔ حلیہ بہرحال طویل عرصہ پیشتر جس حافظ عبدالغفور سے مجھے پہلی مرتبہ ہم کلامی کا موقع ملا ان کا اس وقت کاحلیہ کچھ اس قسم کا تھا۔میانہ قد، صحت مند گدازجسم، سرخی مائل گندمی رنگ، کھلی پیشانی، جاذب نظر چہرہ، کشادہ سینہ، موٹی آنکھیں، چوڑے چہرے پر پھیلی ہوئی سیاہ شرعی داڑھی، لبوں پر مسکراہٹ کاغلبہ، بے تکلفانہ طرزِ گفتگو میں اپنائیت کا مخلصانہ جزبہ، قمیص اور تہبند پہنے ہوئے۔یہ ان کا بھری جوانی کا زمانہ تھا۔اس کے بعد میل ملاپ اور باہمی بات چیت کا جو سلسلہ چلااسے گنتی شمار میں لانا ممکن نہیں۔ پھر آہستہ آہستہ زمانے کے رنگ بدلتے گئے اور وقت کی گاڑی اپنی فطری رفتار سے چلتی رہی تاآنکہ ان کی نوجوانی، جوانی میں بدلی، جوانی نے کہولت کا رخ کیا، اور کہولت بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہوئی۔اور جسمانی صحت پر کمزوری نے قبضہ کیا۔اس کے ساتھ ہی بالوں کی سیاہی نے سفیدی کا لبادہ اوڑھا اور داڑھی کی طوالت سینے تک پہنچی۔سماعت نے ثقل سماعت کا آلہ آویزہ گوش بنایا۔جسم میں کسی حد تک موٹاپے کے آثار ابھرے اور تہبند کی جگہ شلوار نے لی۔قد کاٹھ تو وہی رہنا تھا اور وہی رہا۔طبعی خوش خلقی نے بھی ہمیشہ ان کاساتھ دیا اور آرام وتکلیف کے ہر موڑ پر ان کی رفاقت اختیار کی رکھی اور ہر موقعے پر اپنے وجود کا ثبوت دیتی رہی۔ ولادت اس”خطبہ افتتاحیہ“ کے بعد اب آئیے حافظ عبدالغفور کے متعلق مختلف مقامات میں پھیلے ہوئے شروع سے آخر تک علمی وعملی واقعات خاص ترتیب کے ساتھ اپنے دائرہ معلومات میں لانے کی
Flag Counter