Maktaba Wahhabi

382 - 665
مولانا ابو البرکات احمد 1950؁ءمیں مجھے مرکزی جمعیت اہل حدیث کی طرف سے ہفت روزہ”الاعتصام“میں خدمات سر انجام دینے کے لیے گوجرانوالہ بھیجا گیا تو وہاں میں چند روز ٹاہلی والی مسجد کے ایک کمرے میں رہا۔ اس مسجد میں حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ مغرب کی نماز کے بعد چار پانچ طلبا کو صحیح بخاری کا درس دیا کرتے تھے۔ وہیں ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ گول چوڑا چہرہ، سرخی مائل گورارنگ، کشادہ پیشانی، ابھری ہوئی ذرہ سی موٹی تاک، چمکتی ہوئی آنکھیں، باریک سے خوبصورت دانت، میانہ قد، کتربیونت سے پاک چھوٹی کالی داڑھی، معصوم سی سنجیدہ شکل، کم گو خوش گفتار، سادہ لیکن صاف ستھرا لباس۔ یہ تھے اس زمانے کے مولانا ابو البرکات احمد، جن سے آگے چل کر اچھے خاصے مراسم پیدا ہوئے اور تعلقات کا سلسلہ بڑھا۔ ”الاعتصام“کا دفتر چوک نیائیں میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کی (جامع مسجد اہل حدیث) کے متصل تھا اور میں چند روز کے بعد ٹاہلی والی مسجد کی سکونت ترک کر کے چوک بیری والا کی ایک بلڈنگ میں چلا گیا تھا، لیکن مولانا ابو البرکات احمد سے میل ملاقات کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ وہ چاہ شاہا ں والا کے قریب حضرت حافظ محمد گوندلوی کے ساتھ جامعہ اسلامیہ میں فریضہ تدریس سرانجام دینے لگے تھے اور علم کی دنیا میں مصروف زندگی بسر کرتے تھے۔ مگر وہ تعلقات قائم رکھنےکو عملاً ضروری قراردیتے تھے۔ چنانچہ ہفتے میں دوچار مرتبہ وه ضرور دفتر ”الاعتصام “تشریف لاتے اور ہم دونوں ایک چائے خانے پینے جاتے۔ وہ وضع دار اور رکھاؤ کے عالم دین تھے۔بہترین مدرس، صالح ترین نوجوان اور خوش مزاج انسان۔ان کی زندگی کا ہر پہلو اجلا ہوا اور ہرگوشہ لائق اعتنا تھا۔ جوانی ہی میں بڑھاپے کی متانت نے ان پر اپنا سایہ ڈال دیا تھا۔ اب آئیے شروع سے لے کر آخر تک مولانا ابو البرکات احمد کی حیات طیبہ کی مختلف منزلوں کو تلاش کرتے ہیں اور انھوں نے جہاں جہاں جو نقوش چھوڑے، اپنی معلومات کے مطابق ان کی نشان دہی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ یہاں یہ عرض کردیں کہ مولانا ممدوح کے حالات سے متعلق اپنی ذاتی یادداشتوں کے علاوہ بعض تحریری مآخذ ہمارے سامنے ہیں۔ ایک پروفیسر محمد یوسف سجاد کی تصنیف ”تذکرہ علمائے اہل حدیث پاکستان “(جلد دوم۔طبع 1989؁ء)دوسرا ماہنامہ رسالہ والضحیٰ (گوجرانوالہ)کا شیخ الحدیث
Flag Counter