مولانامحمدرفیق اثری مولانا محمد رفیق اثری 1937ء میں سنگرور(مشرقی پنجاب) کے ایک قصبے”رشیداں والا“ میں پیدا ہوئے۔والد کااسم گرامی میاں قائم الدین تھا جو عامل بالحدیث تھے۔تقسیم ملک کے زمانے میں یہ لوگ براستہ ہیڈسلیمان کی پاکستان میں داخل ہوئے۔مولانااثری کا پورا خاندان اہلحدیث تھا۔ان کےقصبے اور علاقے میں کوم کلاں(ضلع لدھیانہ) کے مولانا سید مولا بخش کے مواعظ حسنہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور یہ لوگ ان سے بہت متاثر تھے۔ان کے قصبے کے خطیب وامام مولاناعبید اللہ تھے جو کسی زمانے میں غالباً دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں پڑھتے رہے تھے۔تقسیم ملک کے بعد وہ سرگودھا چلے گئے تھے۔ نومبر 1947ء میں محمد رفیق اثری جلال پور پیر والا آئے تو دارالحدیث محمدیہ جلال پور پیر والا کی ابتدائی شاخ مدرسہ سبل السلام براقی والا میں انھوں نے پرائمری پاس کی۔اس سے دو سال بعد 1949ء میں دارالحدیث محمدیہ میں داخل ہوئے اور 1956ء میں وہاں سے سند فراغت حاصل کی۔دارالحدیث محمدیہ میں انھوں نے حضرت مولانا سلطان محمود، مولانا عبدالرحیم عارف، مولانا عبدالحمید، مولانا عبداللہ مظفر گڑھی، مولانا عبدالقادر مہند، مولانامحمد قاسم شاہ اور حافظ خوشی محمد سے حصولِ علم کیا۔ بعدازاں دارالعلوم تقویۃ الاسلام(لاہور) کا رخ کیا۔یہاں حضرت مولاناعطاء اللہ حنیف، مولانا حافظ محمد اسحاق اور مولانا شریف اللہ خاں سے فیضیاب ہوئے۔حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے ارشادات سے بھی استفادے کا موقع ملا۔اس زمانے میں ہفت روزہ”الاعتصام“ کادفتر دارلعلوم کی بلڈنگ میں تھا اور ان سطور کا راقم اس کے فرائض ادارت سرانجام دیتا تھا، اثری صاحب کی ملاقاتیں مجھ سے بھی رہیں۔ 1959ء میں مولانا محمد رفیق اثری دارالحدیث محمدیہ جلال پور پیر والا چلے گئے اوروہاں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا جو بحمداللہ اب تک جاری ہے۔اللہ کے فضل سے بے شمار حضرات ان سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں جو مختلف پردرس وتدریس کی خدمات میں مصروف ہیں۔ مولانا اثری کی تدریسی خدمات کا سلسلہ تقریباً پچاس سال سے جاری ہے اورطلباء ان کے طریق تدریس سے نہایت متاثر ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ بے حد محنت اور انہماک سے یہ بنیادی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ |