Maktaba Wahhabi

553 - 665
حافظ عبدالستار حماد ہم اپنے علمائے کرام کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے بعض حضرات سفر حیات کے مختلف مراحل میں مختلف حالات سے دوچار ہوئے، ان پر بے انتہا غربت کا دور بھی آیا اور وہ آسودہ حالی کی خوش کن منزلوں سے بھی گزرے۔ انھوں نے اپنے آباؤاجداد کی بے علمی کا مشاہدہ بھی کیا اور اپنے خاندان کے افراد کو علم و فضل کی مسرت آمیز وادیوں سے گزرتے ہوئے بھی دیکھا۔ ان پر ایسا وقت بھی آیا کہ کسی نہایت ضروری کام سے کہیں جانے کے لیے ایک پیسہ جیب میں نہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب مہیا فرما دیے کہ وہ ہوائی جہازوں میں سوار ہوئے اور مختلف ملکوں میں جا کر اللہ کے دین کی تبلیغ کی۔ یہ دور بھی دیکھا کہ کوئی ان سے سیدھے منہ بات کرنے کا روا دار نہیں، پھر حالات نے ایسی کروٹ لی کہ وہ جدھر جاتے ہیں لوگ نہایت احترام سے ان کا استقبال کرتے ہیں بلکہ ان کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔ اب اس چند سطری متن کی شرح کی طرف آتے ہیں۔ ایک گاؤں کا ایک خاندان مشرقی پنجاب کے ضلع امرتسر میں ایک قصبہ ”پٹی “کے نام سے موسوم ہے۔ تقسیم ملک سے قبل یہ قصبہ ضلع لاہور میں واقع تھا اور اس نواح کے مسلمان کا مشہور مرکز تھا۔ اس قصبے کے قریب ایک گاؤں”بھوپا رام“تھا۔اس گاؤں میں جو مسلمان آباد تھے، ان میں ایک شخص کا نام جان محمد تھا جو غربت کی زندگی بسر کرتا تھا اور محنت مزدوری اس کا پیشہ تھا۔ اس کی ضمانت پر اس کے بھائی نے ایک ہندو سے سود پر قرض لیا۔ہر سال رقم میں سود شامل ہو جاتا تھا۔ کوشش کے باوجود جان محمد کا بھائی قرض نہ اتار سکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سود کی ادائی میں ضمانت دینے والے جان محمد کی بھینسیں فروخت ہو گئیں۔ لیکن اصل رقم ادا نہ ہو سکی۔ اس کے بعد جان محمد کا مکان بھی قرض خواہ ہندو کے قبضے میں چلا گیا۔لیکن اصل رقم اب بھی ادا نہ ہو سکی۔ اسی تنگ دستی کی حالت میں جان محمد وفات پاگیا۔ جان محمد کے ایک بیٹے کا نام مہتاب دین تھا باپ کی طرح مہتاب دین بھی غریب اور مزدوری پیشہ تھا۔ جس طرح باپ بے علم تھے، یہ بھی علم سے تہی داماں تھے۔ ہندوؤں کی بھینسیں چراتے اور گزر اوقات کرتے تھے، باپ کی وفات کے بعد مہتاب دین کی منگنی ہوگئی اور محنت مزدوری کر کے
Flag Counter