Maktaba Wahhabi

292 - 665
مولانا عطاء اللہ لکھوی 1937؁ء میں پہلی مرتبہ مجھے حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی مرحوم ومغفور کی زیارت کا شرف حاصل ہواتھا۔اس وقت میں موضع لکھو کے سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر مرکز الاسلام میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے حلقہ درس میں شامل تھا۔ایک روز ہم دو تین طالب علموں کو مرکز الاسلام سے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی لکھو کے لے گئے۔ہمیں اس گاؤں کو دیکھنے کا بے حد شوق تھا جسے علم وعلماء اور درس وتدریس کے ایک معروف مرکز کی حیثیت حاصل تھی اور جہاں مختلف اوقات میں بہت سی عظیم شخصیتوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ سردیوں کے دن تھے، ہم وہاں پہنچے تو گاؤں میں داخل ہونے والی گلی کے باہر ایک بہت بڑی چارپائی پڑی تھی بلکہ کہنا چاہیے کہ چار پایا پڑا تھا۔میرے خیال میں وہ دس گیارہ فٹ لمبائی میں اور اتنا ہی چوڑائی میں ہوگا۔بہت موٹے پائے، موٹے سیرو، موٹی”باہئیں“ اور موٹے بان کا بنا ہوا۔اسے وہ لوگ”ماچا“ کہا کرتے تھے۔اس پر دس بارہ آدمی بیٹھے تھے اور سب ایک ہی خاندان یعنی حضرت حافظ بارک اللہ لکھوی مرحوم کی اولاد سے تعلق رکھتے تھے۔ان میں حضرت حافظ بارک اللہ لکھوی کے پوتے اور حضرت حافظ محمد لکھوی کے بیٹے مولانا محمدحسین لکھوی بھی شامل تھے۔ جوحضرات وہاں تشریف فرماتھے، وہ مولانا عطاء ا للہ حنیف بھوجیانی کو جانتے تھے۔اس لیے کہ اس سے کئی سال پہلے مولانا ممدوح وہاں طالب علم کے طور پر حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی سے تحصیل علم کرتے رہے تھے اور وہاں کے لوگ ان کی علمی عملی اور معاشرتی زندگی سے آگاہ تھے۔وہ اپنے مدرسے کے اس پرانے طالب علم کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور بہت اچھی طرح ملے۔انھیں معلوم تھا کہ اب وہ حضرت مولانا محمد علی لکھوی کے قائم کردہ مرکز الاسلام میں فریضہ تدریس سرانجام دے رہے ہیں۔ وہاں سے ہم مسجد میں گئے تو حضرت مولانا عطاءاللہ لکھوی کی زیارت سے بہرہ مند ہوئے۔اس وقت وہ عمر عزیز کی 55 منزلیں طے کرچکے تھے۔بھرا ہوا گداز جسم، چوڑا چہرہ، کھلی پیشانی، سرخی مائل گورا رنگ، مہندی لگی ہوئی داڑھی، پورا قد، سرپر ململ کا سفید عمامہ، سفید کھدر کی قمیص اور سفید کھدر کا ٹخنوں سے اونچا آدھی پنڈلی تک تہبند۔ان کے پرانے شاگرد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے ان کو سلام عرض کیا تو سلام کا جواب دے کر پنجابی میں قدرے بلند مگر مشفقانہ آواز میں مسکراتے
Flag Counter