Maktaba Wahhabi

286 - 665
سید ابو الخیر احمد برق حسنی لکھنوی ہندوستان کے علمائے مشاہیر میں سے ایک بزرگ مولانا سید ابو الخیر احمد برق حسنی لکھنوی تھے، جو خانوادہ سید احمد شہید رائے بریلوی سے تعلق رکھتے تھے۔مولانا سید ابو الحسن علی ندوی مرحوم حقیقی ماموں زاد بھائی تھے۔نہایت ذہین اور صاحب فضل و کمال شخص تھے۔حدیث و آثار پر گہری نظر رکھتے تھے، اسی لیے انھیں طبقہ علما میں”حافظ الاحادیث والآثار“ کہا جاتا تھا۔ ہندوستان کے علمائے اہل حدیث میں انھیں عزت کا مقام حاصل تھا۔ دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی تھی اور لکھنؤ ہی سے تعلق سکونت تھا۔وہاں ان کی کچھ ذاتی زمین بھی تھی۔ذہانت کی دولت بارگاہ خدا وندی سے عالم طفولیت ہی میں ودیعت فرمائی گئی تھی۔اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ صرف سات سال کی عمر کے تھے کہ ندوۃ العلماء کا ایک سالانہ جلسہ ہوا، جس میں متحدہ ہندوستان کے اکابر اہل علم موجود تھے۔ اس جلسے میں مولانا سید ابو الخیر احمد نے فصیح و بلیغ عربی میں تقریر کی، جس سے حاضرین جلسہ کے علاوہ علمائے کرام بھی بے حد متاثر اور حیران ہوئے۔ اس جلسے میں مولانا حبیب الرحمٰن خاں شروانی(مولانا ابو الکلام آزاد کے”صدیق مکرم“)بھی موجد تھے۔مولان شروانی نے ان کی تقریر سن کر انھیں ایک سو روپیہ انعام دیا اور فرمایا یہ بچہ نادرۃ الدہر ہے۔اس کا حق انعام ادا نہیں کیا جا سکتا۔سو روپے کو اس زمانے میں بہت بڑی رقم سمجھا جاتا تھا۔ شاید یہ عربی تقریر کسی عالم نے انھیں لکھ کر دی ہو گی اور چھی طرح یاد بھی کرائی ہوگی، لیکن اتنے بڑے مجمع عام میں اور علما کے سامنے جرأت سے بولنا اور خاص لہجے میں الفاظ زبان سے نکالنا بڑی ہمیت کاکام ہے اور یہ ہمت اس بچے نے کی۔ مولانا سید ابو الخیر احمد نے موطا امام مالک حضرت میاں سیدنذیر حسین دہلوی کے شاگرد رشید مولانا عبدالرحمٰن ڈوکمی بستوی سے پڑھا۔ دارالعلوم ندوۃ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور آکر اورینٹئل کالج میں داخلہ لیا۔ اس کالج میں اس وقت عربی کے ممتاز عالم مولانا عبدالعزیز میمنی کا سلسلہ فیض رسانی جاری تھا، ان سے کسب علم کیا اور یہیں مولوی فاضل کا امتحان دیا۔ بعد ازاں شام اور حجاز کو روانہ ہوئے۔شام میں تین سال قیام رہا اور وہاں کے عظیم محدث شیخ بہجۃ البیطارسے درس حدیث لیا۔ شام سے مکہ معظمہ کا عزم فرمایا اور وہاں کے مدرسہ فخریہ عثمانیہ میں تفسیر و حدیث کا درس دینے لگے۔ ان
Flag Counter