Maktaba Wahhabi

246 - 665
مولانا محمد حسین لکھوی یہ فقیر لکھوی خاندان کے جن اکابر علمائے کرام کی زیارت سے سعادت اندوز ہوا، ان میں حضرت مولانا محمد حسین لکھوی کا اسم گرامی لائق تذکرہ ہے، اس لیے کہ وہ حضرت حافظ بارک اللہ لکھوی کے پوتے اور مفسر قرآن حضرت حافظ محمد لکھوی کے فرزند عالی قدر تھے۔ ان کی تاریخ ولادت کا پتا نہیں چل سکا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ انھوں نے کتنی عمر پائی۔ قدرے بھرا ہوا گزار جسم، گندمی رنگ، چوڑا چہرہ، کشادہ پیشانی، کھدر کا کرتہ اور کھدر کا تہبند، سفید عمامہ، رعب دار آواز اور خوش گفتار، میں نے پہلی دفعہ انھیں موضع لکھو کے میں اپنے خاندان کے بعض چھوٹے بڑے افراد کے ساتھ اس”ماچے“پر بیٹھے اور باتیں کرتے ہوئے دیکھا تھا جو گاؤں میں داخل ہونے والی گلی کے باہر پڑا ہوتا تھا۔ اس ماچے کی ہئیت کزائی اور لمبائی چوڑائی کا ذکر میں نے ان گزارشات میں کیا ہے جو حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی کے متعلق تحریر کی گئی ہیں۔ مولانا حسین لکھوی نے مروجہ علوم کی ابتدائی اور اوسط درجات کی کتابیں مولانا عبدالقادر لکھوی اور اپنے برادر کبیر مولانا محی الدین عبدالرحمٰن لکھوی سے پڑھیں۔ کتب حدیث کے لیے دہلی کا عزم کیا اور حضرت میاں سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور ان سے سند حدیث لی۔ مولانا ممدوح علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر اور اپنے آباؤاجداد کی طرح نہایت متقی بزرگ تھے۔اپنے دور کے بہت بڑے مبلغ اور مشہور واعظ تھے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں وعظ فرماتے اور ارشاد فرماتے تھے۔ آواز بے حد شیریں تھی۔مسدس حالی کے اکثر اشعار ان کے ذہن میں محفوظ تھے اور وہ ا شعار وہ بڑے سوز وگداز کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اپنے مدرسہ محمد یہ میں کچھ عرصہ طلبا کو پڑھاتے بھی رہے۔ ان کا پڑھانے کا وہی طریقہ تھا جو دیگر لکھوی علمائے کرام کا تھا۔ حضرت حافظ محمد لکھوی کی وفات (1311؁ ھ)کے بعد مدرسے کی زمام اہتمام ان کے بڑے فرزند مولانا محی الدین عبدالرحمٰن لکھوی کے سپرد ہوئی۔ اہتمام کے علاوہ وہ طلبا کو پڑھاتے بھی تھے اور چندے کے لیے قصبات و دیہات میں بھی جاتے تھے۔ پھر جب وہ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے تو یہ ذمہ داری صاحب ترجمہ مولانا محمد حسین لکھوی کے کندھوں پر آپڑی جو ان کے برادر صغیرتھے، مولانا محی الدین عبدالرحمٰن لکھوی نے 1895؁ ء(1313؁ ھ) میں مدینہ منورہ میں وفات
Flag Counter