Maktaba Wahhabi

452 - 665
مولانا عبدالرشید لداخی ندوی ہفت روزہ”الاعتصام“ کے اجراء سے کچھ عرصہ بعد کی بات ہے کہ دہلی سے ایک خط موصول ہوا۔لکھائی نہایت عمدہ۔خط کا مضمون بہت اچھا۔ازراہِ کرام اس خط میں اخبار” الاعتصام“ کے مضامین اور زبان کی تحسین کی گئی تھی۔لکھنے والے اخبار کے خریدارتھے اور ان کا نام تھا عبدالرشید لداخی۔مجھ پر ان کے طرزِتحریرنے بھی اثر ڈالا اور خوشخطی نے بھی خوش کیا۔میں اس وقت الاعتصام کانائب مدیر تھا۔اور اخبار کا دفتر گوجرانوالہ میں تھا۔میں نے یہ خط اخبار کے ایڈیٹر مولانا محمد حنیف ندوی کو بھی دکھایا اور مولانا محمداسماعیل سلفی کی خدمت میں بھی پیش کیا۔ان بزرگوں کی ہدایت کے مطابق میں نے عبدالرشید لداخی کو خط کاجواب دیا اوراخبار کے بارے میں انھوں نے جو کچھ لکھا تھا، اس کا شکریہ ادا کیا۔پھر ان سے باقاعدہ خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس سے کچھ عرصہ بعد وہ لاہور آئے اور دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں ان سے ملاقات ہوئی۔ان کا اس وقت کا حلیہ اور سراپا اب بھی میرے سامنے ہے۔میانہ قد، گورا سرخ رنگ، تیکھی ناک، چھوٹے قد کی سیاہ داڑھی۔سرپرٹوپی۔شلوار قمیض پہنے ہوئے۔کم گو اورچہرے پر مسکراہٹ۔گفتگو میں احترام کاپہلو نمایاں۔ مولانا عبدالرشید ندوی کاتعلق علاقہ بلتستان کے ایک گاؤں بلغار سے تھا، لیکن وہ اپنے نام کے ساتھ”لداخی“ کی نسبت لگاتے تھے۔لداخ مقبوضہ کشمیر کے مشرق میں تبت کی سرحد پر کوہستانی ضلع ہے، جہاں سے سیاچن گلیشئر کو راستہ جاتا ہے۔یہ خطہ پاکستان کے علاقہ بلتستان کا حصہ تھا۔ مولانا عبدالرشید لداخی ندوی کے دادا کا اسم گرامی، اخوند سلطان علی تھا، جنھیں اپنی دین داری اور علمیت وصالحیت کی وجہ سے علاقے میں نہایت معزز گردانا جاتا تھا۔وہ عربی اورفارسی کے شاعر بھی تھے۔بدعات کی سخت الفاظ میں تردید کرتے اور توحید کے بہت بڑے مبلغ تھے۔تبلیغ توحید اور تردید بدعات کے سلسلے میں انھیں بہت سی تکلیفوں میں مبتلا کیاگیا۔پینتالیس سال کی عمر میں انھیں کسی نے زہر کھلادیا تھا۔جو ان کی موت کا باعث بنا۔عبدالرشید لداخی کے والد کانام نامی مولانا عبدالملک تھا۔اخوند سلطان علی اور مولانا عبدالمالک دونوں باپ بیٹا دینی اور دنیوی اعتبار سے اپنے علاقے میں مرجع خلائق تھے۔ اس نواح کے ایک عالم دین مولانا عبدالصمد تھے، جنھوں نے مفتی کریم بخش اور حضرت میاں
Flag Counter