Maktaba Wahhabi

622 - 665
اسی ابتدائی دور میں انھیں پتا چلا کہ جامعہ سلفیہ بنارس کے طلبا ءکو تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدینہ یونیورسٹی بھیجا جاتا ہے۔انھوں نے ہر نماز کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اللہ سے دعا مانگنا شروع کردی۔ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور 1978؁ء میں انھیں مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ اس کی ضروری تفصیل آگے آئے گی۔ مولانا صلاح الدین کی ابتدائی تعلیم 1966؁ءتک چلتی ہے متوسط تعلیم کے لیے مدرسہ شمس الہدی ٰ سمرا ضلع بستی کا رخ کیا۔۔(اب ضلع بستی کو سدھالت نگر کہا جاتا ہے) یہ مدرسہ ہندوستان کی جماعت اہل حدیث کے ایک مشہور عالم و مناظر مولانا عبدالمبین منظر نے جاری کیا تھا۔ اُس وقت مدرسہ شمس الہدیٰ کے اساتذہ کی جماعت میں خود مولانا عبدالمبین منظر، مولانا عبدالعلیم ماہر بستوی اور مولانا محمد عثمان شامل تھے۔داخلے کے خواہش مند طلباء کا امتحان ضلع بستی کے اہل حدیث مدارس کا ایک بورڈ لیتا تھا۔مولانا صلاح الدین نے بورڈ کے امتحان میں اول پویشن حاصل کی۔ متوسط تعلیم کے آخری سال کی تکمیل انھوں نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں کی۔ وہاں کے اساتذہ میں مولانا عبدالسلام رحمانی، مولانا عزیز احمد ندوی اور مولانا عبدالسلام طیبی کے اسمائے گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ تعلیم کا یہ مرحلہ 1970؁ء میں ختم ہوا، اور امتحان میں یہ پہلی پوزیشن کے حقدارقرار پائے۔ حصول تعلیم کے ابتدائی دور میں مولانا صلاح الدین شعر و شاعری سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ مدرسہ شمس الہدیٰ میں پہنچے تو دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس بستی (سمرا) میں یہ مدرسہ جاری تھا، اسے شاعروں کی بستی کہا جاتا تھا۔اس مدرسے کے اساتذہ میں سے مولانا عبدالمبین منظر اور مولانا عبدالعلیم ماہر بستوی کا شمار اس علاقے کے معروف شعرا میں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ مدرسہ شمس الہدیٰ کے سالانہ جلسے میں مولانا صلاح الدین نےاستقبالیہ نظم پیش کی۔ سٹیج سیکرٹری مولانا انجم جمال اثری تھے جو شاعر تھے۔ انھوں نے مولانا صلاح الدین کی نظم سن کر کہا کہ”یہ بچہ شاعری کرتا رہا تو اپنے دور کا اقبال ہو گا۔“لیکن بعد میں انھوں نے شاعری میں دلچسپی لینا چھوڑدی۔ کبھی کبھار طبیعت آمادہ ہوئی تو چند شعر کہہ دیے ورنہ اس شغل سے اپنے آپ کودور ہی رکھا۔ مولانا صلاح الدین صاحب فرماتے ہیں کہ مدینہ یونیورسٹی جانے سے پہلے انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ عادت چھوٹ جائے۔ چنانچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور شوق شعر گوئی کاخاتمہ ہو گیا۔ اگر کبھی تھوڑی بہت آمادگی بھی تو چند ابیات سے بات آگے نہ بڑھی اور کوئی نظم مکمل نہ ہوسکی۔ میرے خیال میں یہ محض تکلف ہے۔ نہ شعر کہنا یا اس سے نفرت کرنا دینداری ہے اور نہ ترک شعر گوئی کی دعا کرنا مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کی شرائط میں شامل ہے۔ بلکہ شعر گوئی ذوق کی بلندی کی علامت ہے اور کسی عالم دین کا شاعر ہونا اس کی قابلیت کا ایک اضافی اعزاز ہے جس پر اسے
Flag Counter