Maktaba Wahhabi

305 - 665
مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی 1942؁ء کی سرگرمیوں کا موسم تھا کہ ایک صاحب ہمارے ہاں(کوٹ کپورہ) تشریف لائے۔ان کا قیام غالباً حضرت مولانا عطاء اللہ بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ کے برادر کبیر حافظ عبداللہ بھوجیانی کے گھر تھا۔طویل قامت، بھاری بھرکم جسم، کشادہ پیشانی، چہرے پر مختصر(کھودی) داڑھی، گندمی رنگ، سرپر سفید ہلکا سا عمامہ، چارخانے کی ٹخنوں اسے اونچی لنگی، سفید قمیص پہنے ہوئے۔باوقار شخصیت کے مالک۔کم گو اور حلیم الطبع۔یہ تھے حضرت مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی۔ان کے ساتھ ان کے ایک نوجوان فرزند گرامی تھے جو قدوقامت میں والد کی مانند تھے۔ان کا نام مجھے یاد پڑتا ہے، عبدالمالک تھا۔میں نے ایک دن دونوں کو دوپہر کے کھانے کی دعوت دی تو بے حد مسرت کے ساتھ تشریف لائے اور کھانے کے بعد میرے لیے اور تمام افرادخانہ کے لیے دعا فرمائی۔ان کی دعا سے ہم لوگ بہت خوش ہوئے اور خیال کیا کہ اتنے بڑے عالم نے ہمارے گھر آکر ہم پر انتہائی احسان فرمایا ہے اور ہمارے لیے بہتری کی جو دعا کی، اسے اللہ تعالیٰ ضرورقبول فرمائے گا۔اور واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا کی دعا قبول فرمائی۔ اب آئندہ سطور میں حضرت مرحوم کے ان حالات کا مطالعہ فرمائیے، جن تک اس فقیر کی رسائی ہوسکی ہے۔یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ حضر ت مولانا ممدوح پر پہلامضمون اس فقیر نے لکھا تھا۔ جو2۔دسمبر 1949ء کے ہفت روزہ الاعتصام میں شائع ہوا تھا۔اس وقت میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کا آفس سیکرٹری تھا اور ہفت روزہ”الاعتصام“ کے اجرا پر تین مہینے گزرے تھے۔اس سے قبل حضرت مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی مرحوم پر برصغیر کے کسی رسالے یا اخبار میں مختصر یا مفصل کوئی مضمون شائع نہیں ہوا تھا۔آج 18۔جولائی 1905م ہے۔اس حساب سے مولانا مرحوم سے متعلق میرے مضمون کی اشاعت پر 56 سال کی طویل مدت گزر چکی ہے۔اس سے تقریباً تیرہ سال بعد ان کی وفات پر اس عاجز نے اسی اخبار کے10۔اگست 1962ء کے شمارے میں اداریہ لکھا۔آج تیسری بات اس فردوس آشیانی عالم جلیل کے بارے میں چند گزارشات پیش کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔یہ گزارشات بہت حد تک گذشتہ تحریروں سے مختلف ہیں۔یہاں یہ یاد رہے کہ حضرت مرحوم نے خود اپنی مختصر سی سرگزشت لکھی تھی جو 19۔جنوری 1923ء کے اخبار”اہلحدیث“ (امرتسر) میں چھپی تھی۔اس وقت ان کی عمر چھبیس برس کی تھی اور سلسلۂ تدریس کے آغاز پر صرف چھ برس گزرے تھے۔
Flag Counter