Maktaba Wahhabi

664 - 665
مولانا عبدالرشید اٹاروی جن حضرات نے دارالعلوم تعلیم الاسلام (اوڈانوالہ) میں تعلیم حاصل کی اور پھر اس دارالعلوم میں تدریسی خدمات سر انجام دینا شروع کیں اور اب تک دے رہے ہیں، ان میں مولانا عبدالرشید اٹاروی کا اسم گرامی قابل ذکر ہے، ان کا تذکرہ دراصل اس کتاب میں آنا چاہیے تھا جو اس فقیر نے حضرت صوفی عبداللہ مرحوم کے حالات میں تحریر کی ہے اور مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور کی طرف سے2006؁ء میں شائع ہوئی ہے۔ لیکن مجھے ان کے متعلق کسی صاحب نے مطلع نہیں کیا اور خود میرا دھیان بھی ان کی طرف نہیں گیا۔اب حکیم رانا محمد مدثر خاں (چک نمبر485گ ب، ضلع فیصل آباد) نے ان سے متعلق چند باتیں بصورت تحریر ارسال کی ہیں تو ان کے شکریے کے ساتھ یہ باتیں اپنے الفاظ میں یہاں لکھ رہا ہوں۔ مولانا عبدالرشید اٹاروی کے والد کا نام قطب الدین، دادا کا عبدالرحمٰن اور پردادا کا فتح دین تھا اس خاندان کا تعلق راجپوت بھٹی برادری سے ہے اور یہ لوگ کسی زمانے میں چک ساندہ کلاں (تحصیل قصور، ضلع لاہور) میں رہتے تھے۔ انگریزی حکومت نے ضلع لائل پور(حال فیصل آباد) میں چک بندی اور آباد کاری کا سلسلہ شروع کیا تو مولانا عبدالرشید کے پردادا فتح دین اپنے کچھ تعلق داروں کے ساتھ ضلع لائل پور کی تحصیل تاندلیاں والا کے ایک گاؤں چک نمب177گ ب ماڑی اٹاری میں سکونت پذیر ہوگئے اور اس نواح کی بولی میں”آباد کار “کہلائے۔ مولانا عبدالرشیدکے نانا کانام میاں محمد ابراہیم تھا وہ جماعت مجاہدین سے تعلق رکھتے تھے اور اسی وجہ سے صوفی عبداللہ مرحوم کے اصل عقیدت مندوں میں شمار کیےجاتے تھے۔ عبدالرشید1940؁ء میں بمقام چک نمبر177گ ب ماڑی اٹاری پیدا ہوئے اور آگے چل کر اپنے مولدو مسکن کی وجہ سے ”اتاروی“ کی نسبت سے شہرت پائی۔ مولانا ممدوح کے ایک بھائی میاں عبدالقیوم ہیں جو محکمہ شمار یات میں گریڈ نمبر17 کے افسر ہیں اور فیصل آباد میں مقیم ہیں۔ عبدالرشیدکے والد نے 1946؁ءمیں یعنی چھوٹی عمر ہی میں اپنے بیٹے کو حصولِ علم کے لیے صوفی عبداللہ مرحوم کے قائم کردہ دارالعلوم اوڈانوالہ میں بھیج دیا تھا، دو تین اور بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔ لیکن وہاں ان کا جی نہیں لگا، اس لیے واپس گھر چلے گئے تھے۔ بعد ازاں عبدالرشیدنے اپنے
Flag Counter