Maktaba Wahhabi

489 - 665
مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی 1949؁ءکے موسم سرما کے ابتدا میں پہلی دفعہ میں نے مولانا عبدالرشید کو دیکھا، جب حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمد ی، خلیل اثر، ابو بکر صدیق سلفی اور اس فقیر کو پنجاب کے اہل حدیث مدارس کے طلباء کی تنظیم کے لیے مختلف مقامات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے یاد پڑتا ہے لاہور سے روانہ ہو کر پہلا (یا دوسرا) پڑاؤ ہم نے موضع ڈھلیانہ میں کیا تھا۔ وہاں ایک دینی مدرسہ قائم تھا جو کسی زمانے میں ایک نیک دل بزرگ مولوی محمد الدین نے جاری کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد اس کے مہتمم حاجی قطب الدین کھرل کو مقرر کیا گیا تھا جو اس علاقے کی معروف شخصیت تھے۔ ڈھلیانہ اس زمانے میں ضلع منٹگمری(حال ضلع ساہیوال) میں تھا۔اب ضلع اوکاڑہ کی تحصیل رینالہ خورد میں ہے اور رینالہ سے بجانب جنوب باماں بالا روڈ پر دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہم ڈھلیانہ کے اس مدرسے میں ایک رات رہے تھے۔ وہاں پندرہ سولہ سال کے ایک لڑکے کے متعلق بتایا گیا کہ یہ لڑکا پہلے ہندو تھا اور اس کا نام کرشن لال تھا، اب مسلمان ہو گیا ہے اور اس کا نام عبد الرشیدہے۔ یہ لڑکا اس مدرسے کا طالب علم تھا اور وہاں دینیات کی درسی کتابیں پڑھتا تھا۔ نکھرا ہوا گندمی رنگ، کھلی پیشانی، روشن آنکھیں ناک نقشہ مناسب، چہرہ بالوں سے خالی۔ اب آئندہ سطور میں دیکھتے ہیں کہ چڑھتی جوانی کا یہ خوب رولڑکا کرشن لال سے عبدالرشید کیسے بنا۔۔۔؟لیکن اس سے پہلے اس کے مسکن اور اس کے خاندان کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ ضلع اوکاڑہ کی تحصیل رینالہ خورد میں ایک گاؤں اسلام پور کے نام سے موسوم ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اس گاؤں میں مسلمان بھی آباد تھے اور غیر مسلم بھی۔ہندوؤں کے اس گاؤں میں بیس گھر تھے جو سیاسی اصطلاح میں اقلیت میں تھے۔ لیکن یہ لوگ سرمایہ دارتھےاور سرمایہ دار ہونے کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں پر ان کا اثر رعب کی حدتک پہنچ گیا تھا۔ اس گاؤں کا ایک ہندوخاندان اروڑہ برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ ان میں ایک شخص کا نام گوراں دتہ مل تھا جو اس علاقے کا مشہورساہو کار، معروف سیٹھ اور بااثر کاروباری شخص تھا۔ پتوکی پرانی منڈی میں اس کاروئی کاکارخانہ تھا۔اس کا سودی کاروبار بھی عروج پر تھا۔ اس کے گھر میں ملکہ و کٹوریہ تصویروالے چاندی کے روپے تھیلیوں میں پڑے رہتے تھے جو وہ ضرورت مند قرض خواہوں کو سود پر دیتا تھا، جس مکان میں وہ
Flag Counter