Maktaba Wahhabi

599 - 665
نذیر احمد اس وقت روز نامہ اخبار”سیاست“پڑھ رہے تھے جو کان پور سے شائع ہوتا تھا۔ انھوں نےیہ اخبار عبدالسلام کے سامنے رکھا اور اس کی چند سطریں سنیں اور بعض الفاظ کے معنے پوچھے۔عبدالسلام نے وہ سطریں پڑھیں اور الفاظ کے معانی بتا دیے تو انھیں اسی وقت دارالحدیث رحمانیہ میں داخل کر لیا گیا۔ وہ سیاسی لحاظ سے برصغیر کا نہایت ہنگامہ خیز دور تھا اور یہ خطہ ارض جہاں انگریزی حکومت سے حصول آزادی کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا تھا، وہاں تقسیم ملک کے نتیجے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان فسادات کا ریلا بھی پورے دور پر تھا۔ صدیوں سے ایک جگہ رہنے اور ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات رکھنے والے لوگ اب باہم دشمن کا روپ دھار چکے تھے۔چنانچہ عبدالسلام کے دہلی کے دارالحدیث رحمانیہ میں داخلے سے ساڑھے تین مہینے بعد دہلی شہر شدید فسادات کی زد میں آگیا اور قتل و غارت کا وہ طوفان بپا ہوا کہ خدا کی پناہ۔ اس وقت دارالحدیث رحمانیہ کے مہتمم شیخ عبدالوہاب تھے۔ انھوں نے فسادات کے آغاز ہی میں جامعہ ملیہ کے پرنسپل ڈاکٹر ذاکر حسین سے رابطہ قائم کیا اور دارالحدیث کی عمارت اور لائبریری ان کی وساطت سے جامعہ کے حوالے کر کے خود کراچی چلے گئے۔ انہی فسادات کے زمانے میں عبدالسلام رحمانی نے دہلی میں مولانا ابو الکلام آزاد کو دیکھا اور وہیں دو مقامات پر اپنے ساتھی طلبا ءکی معیت میں مولانا کی تقریریں سننے کا موقع ملا۔ جب پورا دہلی فسادات کی لپیٹ میں آگیا اور امن و امان کی امید بظاہر باقی نہ رہی تو عبدالسلام رحمانی اپنے چچا محمد عابد رحمانی کے ساتھ کسی طرح دہلی سے نکلے اور نومبر 1947؁ ھ میں اپنے گھر واپس آگئے۔ پھر وہیں مدرسہ سراج العلوم میں پڑھائی کا سلسلہ شروع کردیا۔ 1951؁ءتک وہاں کے اساتذہ سے حصول علم کا سلسلہ جاری رہا۔ 1950؁ءمیں ان کے چچا مولانا محمد عابد رحمانی جامعہ رحمانیہ (بنارس ) میں داخل ہوئے۔1951؁ءمیں وہ ان کو بھی وہیں لے گئے۔دارالحدیث رحمانیہ (دہلی ) کے خاتمے کے بعد مولانا نذیر احمد رحمانی بھی جامعہ رحمانیہ (بنارس ) میں خدمت تدریس سر انجام دینے لگے تھے۔ اب عبدالسلام وہاں پہنچے تو پھر انہی نے ان کا امتحان لیا اور انھیں جامعہ میں داخل کر لیا گیا۔ مولانا عبدالسلام نے مدرسہ سراج العلوم میں حصول تعلیم کا آغاز کیا اور جامعہ رحمانیہ میں اس کی تکمیل ہوئی۔ جامعہ رحمانیہ کے دوران تعلیم ہی میں انھوں نے الٰہ آباد کے سرکاری عربک بورڈ سے فروری 1955؁ء میں مولوی کا، فروری1956؁ءمیں مولوی عالم کا اور فروری 1958؁ءمیں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ مارچ 1958؁ء(شعبان 1377؁ ھ) میں جامعہ رحمانیہ (بنارس) سے سند فضیلت حاصل کی۔، انھوں نے چونکہ دو ہی مقامات سے تعلیم حاصل کی ہے، اس لیے اساتذہ کی تعداد کم ہے۔ابتدائی مدرسے میں منشی محمدزمان اورمولانا محمداقبال رحمانی سے پڑھا اور جامعہ رحمانیہ(بنارس) میں (عربی مدارس کے نصاب کے مطابق) جماعت ثانیہ سے درجہ فضیلت تک مولانا نذیراحمد رحمانی املوی، مولانا مفتی عبدالعزیز عمری مئوی، مولانا فضل الرحمٰن عمری مئوی اور مولانا عبدالوحید رحمانی کے سامنے زانوئے شاگردی طے کیے۔جامعہ رحمانیہ ہی میں حضرت مولانا ابوالقاسم بنارسی کے برادرِصغیر قاری احمد سعید بنارسی سے تجوید قرآن کے قواعد کی تعلیم حاصل کی۔ابتداء بغدادی قاعدہ سے ہوئی اور مروّجہ علوم کی انتہا کا معاملہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم تک پہنچا۔حدیث پاک کی یہ دونوں آخری کتابیں مولانا نذیراحمد رحمانی املوی سے پڑھیں۔مولانا نذیر احمد رحمانی نے یہ کتابیں حضرت مولانا احمداللہ پرتاب گڑھی سے پڑھی تھیں۔اور حضرت مولانا احمداللہ کا شمار حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے اصحاب تکریم تلامذہ میں ہوتا تھا۔رحمہم اللہ تعالیٰ۔ مولانا عبدالسلام رحمانی اپنے تمام اساتذہ کا بے حدتکریم سے ذکر کرتے ہیں اور ان کے اندازِ تعلیم اور طریق تربیت سے بہت متاثر ہیں۔اساتذہ کے علاوہ جن حضرات کے اوصاف نوع بنوع نے خاص طور سے ان کے قلب وذہن پر غلبہ پایا، ان میں ایک عظیم شخصیت حضرت مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری کی ہے۔ان کے علم وفضل، وسعت مطالعہ، تحقیق وتدقیق، تدین وتقویٰ اور کریمانہ اخلاق کا ان پر بہت گہرا اثر ہے۔نیزشیخ عبدالعزیز بن باز کی فضیلت علمی اور جذبہ اتباع سنت سے بھی وہ بہت متاثر ہیں۔شیخ ممدوح کادل ملت اسلامیہ کی ہمدردی سے بھرپور تھا اور انسانیت کی خیر خواہی ان کے قلب صافی میں راسخ ہوچکی تھی۔شیخ ناصرالدین البانی کی تحقیقی کاوشوں اورعلمی مساعی نے بھی ان پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ مروّجہ درسی نصاب سے فراغت کے بعد ایک سال تو انھیں کہیں کوئی کام نہ مل سکا اور ان کا یہ سال پریشانی کی نذر ہوا۔پھر تین مہینے ایک مقام ریوا کی مسجد میں خطابت وامامت کرتے رہے۔وہاں کچھ تدریسی خدمت بھی انجام دی۔کچھ عرصہ گھی کی خریدوفروخت میں گزرا۔پھر کچھ عرصہ ادھر اُدھر کے چکر لگاتے ہوئے ایک صاحب کی معرفت مرادآباد کی مسجداہلحدیث میں پہنچے اور وہاں خطیب وامام مقرر کرلیے گئے۔وہ مسجد حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد حضرت مولانا حافظ عزیزالدین صاحب مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی تعمیر کردہ تھی۔اس مسجد میں حضرت حافظ عزیز الدین صاحب کا بیش قیمت کتب خانہ بھی تھا۔مسجد اورکتب خانے کے متولی حافظ صاحب کے فرزند گرامی محمد جمیل صاحب تھے جونیک دل اور سادہ مزاج بزرگ تھے۔کتب خانہ مکڑی کے جالوں اورگردوغبار سے اٹا پڑا تھا۔مولانا عبدالسلام رحمانی نے تمام کتابوں کو صاف کیا اور ان سے استفادہ
Flag Counter