Maktaba Wahhabi

596 - 665
میں گزرتا ہے۔ یہ ان کی بہت بڑی خوش بختی اور اللہ کا ان پر بہت بڑا کرم ہے۔ یہ سطور 12۔ستمبر 2007؁ءکو لکھی جا رہی ہیں۔ اب تک ان سے بے شمار حضرات استفادہ کر چکے ہیں، جن میں سے متعدد علمائے کرام مختلف مدارس میں فرائض تدریس سر انجام دے رہےہیں۔بعض اسی دارالحدیث محمدیہ (جلال پور پیر والا) کی مسند درس پر فائز ہیں۔ مثلاً حافظ عبدالرشید، حافظ محمد رفیق سلفی، حافظ عبدالمجید، مولانا اسامہ عتیق اور مولانا ضیاء الرحمٰن کا شمار ان کے ان سعادت مند تلامذہ میں ہوتا ہے، جنھوں نے اسی دارالحدیث سے تعلیم حاصل کی اور پھر یہیں مصروف تدریس ہوئے۔ ان کے علاوہ حضرت حافظ عبدالستار حماد (مرکز الدراسات الاسلامیہ میاں چنوں ) حافظ عبدالغفار مدنی (جامعہ محمد یہ اوکاڑہ) اور دیگر بہت سے اصحاب علم ہیں جن کی مختلف مقامات میں تصنیفی، تدریسی اور خطابتی سر گرمیاں جاری ہیں اور مولانا اللہ یار کے شاگرد انِ کرام کی وسیع فہرست میں شامل ہیں۔ مولانا اللہ یار کو متعدد مدارس کے ارباب انتظام نے اپنے مدارس میں خدمت تدریس سر انجام دینے کی دعوت دی، لیکن وہ اس درسگاہ سے اپنا رشتہ توڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس درسگاہ سے انھیں سچی اور حقیقی محبت ہے جو انھیں وہاں سے علیحدہ نہیں ہونے دیتی۔ اس درسگاہ کے بانی اور مولانا اللہ یار کے استاذ گرامی بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس سے علیحدگی اختیار کریں۔ ایک مرتبہ ساہیوال کے قاری محمد یحییٰ رسول نگری نے اپنے مدرسے کے کتب خانے کے افتتاح کے لیے مولانا اللہ یار کو دعوت دی۔ اس کا مولانا سلطان محمود صاحب کو پتا چلا تو انھیں شبہ پڑا کہ یہ وہیں نہ رہ پڑیں۔ اس کا اظہارانھوں نے مولانا اللہ یار سے تو نہیں کیا البتہ جامعہ کے ٹائم ٹیبل پر فارسی کے یہ دو شعر لکھ دیے۔ آموختی ازما بکار دیگراں کردی ربودی گوہر از ما نثار دیگراں کردی (پڑھا ہم سے اور کام دوسروں کے کرتے ہو۔ موتی ہم سے لیا اور نثار دوسروں پر کیا) کہن شاخ کہ زیر سایہ او پر بر آوردی چوں برگش ریخت آشیانہ ازاد برداشتن ننگ است (جس پرانی ٹہنی کے سائے میں بیٹھ کر تونے اڑنا سیکھا، اس کے پتے جھڑنے لگیں تووہاں سےآشیانہ اٹھا لینا بے وفائی ہے) یہ شعر پڑھ کر مولانا اللہ یارحضرت مولانا سلطان محمود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اب اس دارالحدیث سے میرا جنازہ ہی اٹھے گا۔ شاگرد کی زبان سے یہ الفاظ سن کر مولانا نہایت خوش ہوئے اور ڈھیروں دعائیں دیں۔
Flag Counter