Maktaba Wahhabi

590 - 665
اب مولانا ابو الاشبال احمد شاغف کے لائق احترام اساتذہ کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرمائیے۔ اُردو اور فارسی کے مشہور اساتذہ میں جناب فرمان علی، کرامت علی، عبدالغفار شمسی، حاجی نور محمد، مولوی عبدالرحمٰن اور بعض دیگر حضرات، قرآن مجید ناظرہ کی ابتدا ءفرمان علی صاحب سے ہوئی اور اختتام جناب عبدالغفار صاحب شمسی اور حاجی نور محمد صاحب کی خدمت میں ہوا۔ قرأت کی تعلیم قاری سعید اختر صاحب سے حاصل کی۔ عربی ادب اور صرف و نحو کے لیے مولانا ابو البرکات اور مولانا عبدالرشید لداخی ندوی کے حضور زانوئے شاگردی طے کیا۔ ترجمہ قرآن کا آغاز مولانا ابو البرکات سے ہوا اور اس کی انتہا مولانا عبدالصمد بہاری سے ہوئی۔ حدیث شریف کی کتابوں میں سے ریاض الصالحین مولانا ابو لبرکات سے پڑھی اور بلوغ المرام اور مشکوۃ مولانا عبدالصمد بہاری سے پڑھیں۔ مولانا عبدالصمد بہاری کو مولانا نذیر احمد املوی رحمانی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ تفسیر قرآن اور صحاح ستہ کی تعلیم بغیر کسی درسگاہ میں داخلہ لیے کلکتہ اور بعض دیگر مقامات میں مولانا عبدالرحمٰن، مولانا عبداللہ اور مولانا محمد اکرم سے حاصل کی۔ یہ تینوں علمائے کرام حضرت مولانا ابو القاسم بنارسی کے شاگرد تھے۔ لیکن تفسیر و حدیث میں مولانا ابو الاشبال نے سب سے زیادہ استفادہ مولانا عبدالرشید لداخی ندوی اور مولانا محمد منظور الحق رام پوری سے کیا۔مولانا عبدالرشید لداخی ندوی مشہور عالم دین، شاہ عبدالحلیم عطا کے شاگرد تھے اور مولانا محمد منظور الحق نے مولانا عبدالوہاب دہلوی سے تحصیل علم کی تھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ مولانا ابو الاشبال تحریر و نگارش کی وادی میں کیسے داخل ہوئے اور اس کا آغاز کس طرح ہوا۔ کسی زمانے میں دیوبند سے ایک ماہانہ رسالہ شائع ہوتا تھا جس کانام ”تجلی“تھا۔ اس کے ایڈیٹر عامر عثمانی مرحوم تھے جو مولانا شبیر احمد عثمانی کے عزیزوں میں سے تھے۔اس کے ایک شمارے میں عامر عثمانی صاحب نے اس موضوع پر مضمون لکھا کہ جو شخص ایسے وقت پر مسجد میں آتا ہے جب خطیب خطبہ جمعہ دے رہا ہو تو وہ آکر بیٹھ جائے اور خطبہ سنے، دو رکعت (جن کے پڑھنے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے) بالکل نہ پڑھے۔ یہ مضمون 31صفحات پر مشتمل تھا۔مولانا ابو الاشبال نے صرف ایک صفحے میں اس کامختصر سا جواب لکھ کر ایڈیٹر کو بھیجا۔ یہ جواب ”تجلی “میں شائع تو نہ ہوا، البتہ اس کے بعد عامر عثمانی صاحب نے اس موضوع پرکچھ لکھا نہیں۔ یہاں یہ یادرہے کہ مولانا عامر عثمانی جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے آپ کو
Flag Counter