Maktaba Wahhabi

579 - 665
آتے، ان سےقرآن مجید سنتے۔ایک روز قاری عبدالخالق رحمانی تشریف لے آئے۔انھوں نے بھی قرآن مجید سننے کی خواہش ظاہر فرمائی۔اتفاق سے صلاح الدین یوسف نے ان کو سورہ بقرہ کا وہ رکوع سنایا جس میں آیت: (أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ) آتی ہے۔انھیں تو اس کے ترجمے کا پتا نہ تھا لیکن یہ سن کر قاری صاحب نے فرمایا بھئی تم نے تو ہمیں ہی وعظ سنادیاہے۔ حفظ قرآن کے بعد کسی نہ کسی طرح حافظ صلاح الدین یوسف علوم دینی کے حصول کی طرف متوجہ ہوئے۔اس وقت کراچی میں جامع العلوم سعودیہ نام کی درسگاہ ایک چھوٹے سے مکان میں جاری تھی۔اس میں ناظرہ اورحفظ قرآن کےعلاوہ درس نظامی کا شعبہ بھی قائم تھا۔وہاں پہلے علامہ محمد یوسف کلکتوی شیخ الحدیث تھے۔ پھر وہ پنجاب آگئے تھے۔ان کے بعد مولاناحاکم علی دہلوی کو صدر المدرسین مقرر کیا گیاتھا۔مولانا ممدوح بہت بڑےمدرس اور تجربہ کا معلم تھے۔منقول ومعقول میں مہارت رکھتے تھے۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے ان سے درس نظامی کا آغاز کیا۔یہی مدرسہ بعدمیں سفیدمسجد سولجر بازار میں منتقل ہوا اور اس کانام دارالحدیث رحمانیہ رکھاگیا۔اس مسجد کے بانی وناظم شیخ عبدالوہاب تھے جو دارالحدیث رحمانیہ(دہلی)کےمہتمم شیخ عطاءالرحمٰن کےفرزندگرامی تھے۔انھوں نےاپنےمرحوم بزرگوں کی یادگار(دارالحدیث رحمانیہ دہلی) کو زندہ کرنے کےلیے اس مدرسے کا یہ نام تجویزکیا۔اور اس کےاہتمام کی ذمہ داری قبول کی۔حافظ صلاح الدین یوسف نے اسی مدرسے میں درس نظامی کی تعلیم کاآغاز کیااور مولانا حاکم علی دہلوی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔ ڈھائی تین سال حافظ صلاح الدین یوسف کو مولانا حاکم علی کے حلقہ درس میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔اس اثناءمیں درسی کتابوں کے علاوہ انھوں نےعلمی اورادبی رسائل وجرائد کابھی مطالعہ کیا۔ان رسائل وجرائد میں ماہنامہ”تجلی“(دیوبند)چراغ راہ(کراچی) فاران(کراچی)سیارہ(لاہور)ترجمان القرآن(لاہور)میثاق(لاہور)رحیق(لاہور)ہفت روزہ شہاب(لاہور)ہفت روزہ ایشاء(لاہور)شامل ہیں۔ ان رسائل وجرائد کےعلاوہ مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا ابو الحسن علی ندوی اورمولانا عبدالسلام ندوی وغیرہ متعدد اصحاب قلم کی تصانیف کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔پھر اس سے آگے برھ کرمولانا ابوالکلام آزاد، قاضی محمدسلیمان منصور پوری، علامہ شبلی نعمانی، سیدسلیمان ندوی اور مولانامودودی کی کتابیں پڑھنے کی تمنادل میں ابھری اور اللہ کے فضل سے یہ تمنا پوری ہوئی۔ اس زمانے میں بند روڈ کے فٹ پاتھ پر ایک بزرگ کتابوں کا سٹال لگاتے تھے۔یہ حافظ صلاح الدین یوسف کی روزانہ کی گزرگاہ تھی۔اس بک سٹال پر حافظ صاحب رکتے اور کتابیں دیکھتے
Flag Counter