2۔مولانا حافظ عبدالغفور جہلمی :وفات 16۔اکتوبر1986ء 3۔پیر محمد یعقوب قریشی:وفات 21۔جولائی2003ء 4۔مولانا محمدصادق خلیل:وفات 6۔فروری2004ء 5۔مولانا عبدالقادرندوی:مدظلہ العالی ان کے تمام ساتھیوں نے اپنے اپنے دائرہ عمل میں بڑا نام پایا۔بڑی تدریسی خدمات سرانجام دیں اور بہت لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ 1945ءمیں مولانا عبدالصمد رؤف مدرسہ تعلیم الاسلام (اوڈانوالہ) سے فارغ التحصیل ہوئے اور سند فراغ لی۔پھر صوفی عبداللہ صاحب اور اپنے والد محترم کے حکم سے اسی مدرسے میں خدمت تدریس انجام دینے لگے۔1946ءمیں اسی مدرسے کی طرف سے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں مولوی فاضل کا امتحان دیا اور نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اس سے کچھ عرصہ بعد میٹرک کا امتحان پاس کیا۔پڑھنے میں بہت تیز تھے اور ذہن رساپایا تھا۔ تمام درسی تعلیم اپنے گاؤں کے دارالعلوم تعلیم الاسلام سے حاصل کی۔ان کے اساتذہ کی لائق تکریم جماعت میں مندرجہ ذیل حضرات شام ہیں۔ بالترتیب وفات نام ملاحظہ ہوں: 1۔۔۔مولانا حافظ گوندلوی:وفات4۔جون1985ء 2۔۔۔مولانا محمد اسحاق چیمہ:وفات23۔مارچ1993ء 3۔۔۔مولانا حافظ محمد داؤد بھوجیانی رحمانی:وفات 5۔نومبر1995ء 4۔۔۔مولانا حافظ محمد اسحاق حسنیوی:وفات4۔جولائی2002ء ان بزرگان عالی قدر میں سے دارالعلوم کے لیے سب سے زیادہ خدمات حافظ محمد اسحاق حسینوی کی ہیں۔وہ کئی سال یہاں رہے اور بہت لوگ ان سے فیضیاب ہوئے۔ مولانا عبدالصمد رؤف منجھے ہوئے مدرس تھے۔درسی کتابوں پر عبور حاصل تھا۔ذمہ داری اور محنت سے پڑھاتے تھے۔مطالعہ وسیع تھا۔ طلبا ان کے طریق تدریس سے مطمئن تھے۔کہیں جانے آنے کی عادت نہ تھی۔ تقریر وخطابت اور جلسے جلوس سے دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔نہ کسی مذہبی اجتماع میں جاتے تھے۔نہ سیاسی اجتماع میں۔درس و تدریس کے علاوہ کسی معاملے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ 1963ءمیں حضرت صوفی عبداللہ صاحب نے ماموں کانجن ریلوے اسٹیشن کے قریب دارالعلوم کے لیے جگہ خرید لی تھی۔اسی سال13ستمبرکونئی عمارت کی بنیاد رکھ دی تھی۔اسی سال کچھ عمارت تیار ہوگئی تو ایک جماعت اوڈانوالہ سے ماموں کانجن آگئی تھی اور محدودسے پیمانے پر تدریس کاسلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔1964ء میں مزید کمرے تعمیر ہوگئے تو دوسری، تیسری، چوتھی (تین) جماعتیں |