Maktaba Wahhabi

396 - 665
بڈھیمالوی کی خدمات حاصل کرلی تھیں اور ان کا شہرۂ تدریس مختلف دینی درسگاہوں میں پہنچ گیا تھا۔حافظ عبدالغفور نے جھوک دادو جاکر میاں محمد باقر کے علاوہ حافظ عبداللہ بڈھیمالوی سے بھی اخذ علم کیا۔پھر حافظ عبداللہ صاحب وہاں سے اپنے وطن بڈھیمال گئے تو عبدالغفور استاذ کے پیچھے بڈھیمال پہنچ گئے اور کچھ عرصہ وہاں ان کے حلقہ درس میں رہے۔ حصول علم دینیہ کے لیے حافظ عبدالغفور انتہائی سرگرم تھے۔جہاں کسی لائق استاذ کے بارے میں تھوڑا بہت پتا چلا وہاں جاپہنچا۔اس ضمن میں وہ دیہات میں بھی گئے اور قصبات وبلاد کے چکر بھی لگائے، جس سے جو کچھ ملا لے لیا۔گوجرانوالہ میں مولانا محمد چراغ مرحوم کی خدمت میں گئے اور ان کے سامنے زانوئے شاگردی طے کیے۔ دارالعلوم تعلیم الاسلام(اوڈاں والا) میں جن حضرات سے اکتسابِ فیض کیا وہ ہیں حضرت حافظ محمد گوندلوی، مولانا حافظ محمد اسحاق حسینوی، مولانا عبدالرحمٰن لکھوی اور بعض دیگر اساتذۂ گرامی۔سند فراغت اوڈاں والا سے لی۔ان کے تمام عالی قدر اساتذہ سفرآخرت پرروانہ ہوچکے ہیں۔ ہم درس طلباء اساتذہ کے بعد اب حافظ عبدالغفورکے ہم درس طلباء کی طرف آئیے۔یہ بڑی وسیع فہرست ہے، جس میں مولانا محمد اسحاق چیمہ، مولانا محمد صادق خلیل، مولانامحمد یعقوب ملہوی، پیر محمد یعقوب قریشی، مولانا محمد صدیق لائل پوری، مولانا عبدالصمد رؤف، مولانا حبیب الرحمٰن لکھوی اور حافظ محمد زکریا(ساکن جھوک دادوچک نمبر 427 گ ب) شامل ہیں۔ فراغت کے بعدان کے ہم درس حضرات نے بھی مختلف مقامات میں خدماتِ تدریس سرانجام دیں اور بعض نے خطابت میں نام پایا۔بالآخر اپنی اپنی مدتِ حیات پوری کرکے یہ بھی دربارِالٰہی میں جاپہنچے۔یہ فقیر حافظ عبدالغفور کے اکثر اساتذہ کا بھی نیاز مند تھا اور ان کے مندرجہ بالا ہم جماعت حضرات سے بھی دوستانہ علائق رکھتاتھا۔دعا ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ حافظ صاحب ممدوح کے ایک ہم جماعت ہمارے دوست مولانا عبدالقادر ندوی تھے۔وہ ایک مدت سے جامعہ تعلیم الاسلام(ماموں کانجن) کے منصب صدارت پر فائز ہیں۔اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ انھیں صحت وعافیت سے رکھے اور وہ ہمیشہ اس کے دین کی خدمت میں مصروف رہیں۔ مختلف مقامات میں درس وتدریس تحصیل علوم کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد حافظ عبدالغفور نے نئی عملی زندگی کا آغاز ایک
Flag Counter