Maktaba Wahhabi

392 - 665
ہماری جماعت کے اہل علم کے متعلق بعض اصحابِ قلم کا اندازِ تحریر یہ ہوتا ہے کہ وہ جید عالم تھے، بہت بڑے فاضل تھے، بہت بڑے خطیب تھے، بہت بڑے مدرس تھے۔ان سے بے شمار لوگوں نے فیض حاصل کیا اورانھوں نے سینکڑوں شاگرد اپنے پیچھے چھوڑے۔بتائیے ان تعریفی الفاظ سے کیا حاصل ہوا؟ نہ کسی شاگرد کا نام لیا، نہ اس کی تدریسی مساعی کی تفصیل بیان کی، نہ ان کی تصانیف کا ذکر کیا، نہ ان کے علمی مرتبے کی کوئی مثال دی۔یہ کام ان کے شاگردوں اورعقیدت مندوں اور ان سے استفادہ کرنے والوں کا ہے۔انھیں چاہیے کہ اپنے اساتذہ کی زندگی کے تمام ضروری پہلوؤں کی وضاحت کریں تاکہ آئندہ ان پر کوئی لکھنا چاہے تو اسے آسانی سے مواد دستیاب ہوجائے اور علمی تاریخ کا سفر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔ مولانا ابوالبرکات احمد کے صاحبزادے عبدالحمید آثم صاحب کا ایک مضمون”والدی“کے عنوان سے”والضحیٰ “کے شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد نمبر(ستمبر 1991ء) میں شائع ہواہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کےعلاوہ مولانا کے ایک اورصاحبزادے عبدالحمید ہیں۔لیکن یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ مولانا کے یہ دونوں صاحبزادے کیا کرتے ہیں۔اور ان کی علمی وعملی تگ ودو کے دائرے کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بہرحال مولانا ابوالبرکات احمد نے پورے چالیس برس تدریسی خدمات سرانجام دیں اورجامعہ اسلامیہ(گوجرانوالہ) سے باہر قدم نہیں رکھا۔وہ اونچے مرتبے کے استاذ تھے۔اپنے شاگردوں سے اپنا کوئی ذاتی کام نہیں کراتے تھے۔انھیں پڑھنے لکھنے میں مصروف رکھتےتھے۔ مولانا ممدوح کوشوگر کا عارضہ لاحق ہوگیاتھا۔اس مرض نے ان کےدل کو بھی متاثر کیا۔لیکن اس کے باوجود انھوں نے سلسلہ تدریس باقاعدہ جاری رکھا۔اس عالی مرتبت عالم ومدرس نے 16۔محرم 1412ھ(29۔جولائی 1991ء) کو وفات پائی اور بے شمار لوگ ان کے جنازے میں شامل ہوئے اور نہایت اعزاز کے ساتھ انھیں دنیائے فانی سے عالم جادوانی کی طرف رخصت کیا گیا۔ اللّٰه م اكرم نزله ووسع مدخله وادخله جنت الفردوس مولانا ابوالبركات احمد کی اولاد ماشاء اللہ پانچ بیٹے اور چاربیٹیاں ہیں۔ 1۔بڑے بیٹے کا نام عبدالحمید ہے۔دینیات کے عالم ہیں اورکمپوزنگ کا کام کرتے ہیں۔ 2۔دوسرے بیٹے عبدالمجید ہیں۔یہ بھی عالم دین ہیں اور تاجر کتب ہیں۔ 3۔تیسرے بیٹے عبدالعزیز ہیں۔یہ جدہ(سعودی عرب) میں ملازمت کرتے ہیں۔ 4۔چوتھے عبدالسمیع عاصم ہیں۔یہ گوجرانوالہ میں درس وتدریس اور خطابت وطبابت میں مشغول ہیں۔
Flag Counter