Maktaba Wahhabi

369 - 665
الآخرت، انواع محمدی اور زینت الاسلام وغیرہ پڑھائیں۔بعد ازاں مولوی رحیم بخش کی تصنیف”اسلام کی کتاب“ کے چار پانچ حصے پڑھائے۔ اب احمداللہ کے دل میں حصول علم کا جذبہ ابھر آیا تھا اور وہ اس جذبے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہوگئے تھے۔اس وقت مدرسہ محمدیہ لکھو کے کی بڑی شہرت تھی جسے بعد میں جامعہ محمدیہ کے نام سے موسوم کیاگیا۔وہاں استاذ پنجاب حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی کی مسند تدریس آراستہ تھی۔بالخصوص صرف ونحو میں مولانا لکھوی درجہ امامت پر فائز تھے۔حافظ احمداللہ نے حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی کی خدمت میں حاضر ہوکر صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں۔مولانا ممدوح کے صاحبزادے مولانا عبدالرحمٰن لکھوی بھی وہیں پڑھاتے تھے اور منطق وفلسفہ پر عبور رکھتے تھے۔ان سے حافظ صاحب نے منطق اور فلسفے کی کتابیں پڑھیں۔ لکھو کے سے علوم وفنون کی متد اول کتابیں پڑھنے کے بعد حافظ احمداللہ نے گوجرانوالہ کا عزم کیا اور وہاں حضرت حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کی خدمت میں حاضری دی۔حضرت حافظ محمد صاحب سے صحیح بخاری اور مروجہ نصاب کی بعض انتہائی کتابیں پڑھیں۔حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی سے صحیح مسلم، مختصر المعانی اور عربی ادبیات وغیرہ کی تکمیل کی۔مولانا سلفی اپنے اس شاگرد کی طبعی شرافت، کم گوئی، صالحیت اورسادگی کی بنا پر انھیں”فرشتہ“ کے نام سے پکارتے تھے۔ گوجرانوالہ سے فراغت کے بعد حضرت حافظ عبداللہ روپڑی کے حلقۂ درس کی شہرت سنی تو روپڑ چلے گئے۔حضرت حافظ عبداللہ صاحب سے انھوں نے صحیح بخاری دوبارہ پڑھی، ہدایہ اوّلین کا درس لیا اور علوم نقلیہ وعقلیہ کی بعض کتابیں پڑھیں۔ اس زمانے میں حضرت مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی شعبان اور رمضان میں فارغ التحصیل طلباء کو دورۂ تفسیر کرایا کرتے تھے۔اس دورے کی حلقہ ٔعلماء میں بڑی شہرت تھی اور مولانا سیالکوٹی بے شبہ پیکر علم وعمل، وسیع المطالعہ اور بہت بڑے محقق تھے۔1939ء میں حافظ احمداللہ صاحب ان کی خدمت میں گئے اور دورۂ تفسیر کیا۔مولانا سیالکوٹی چھوٹی بڑی 84 کتابوں کے مصنف تھے۔انھیں قرآن پر جو عبورحاصل تھا، اس کا اندازہ ان کتابوں سے ہوتا ہے جو انھوں نے قرآن سے متعلق لکھیں۔ 1939ء میں حافظ احمداللہ صاحب نے مروجہ علوم سے فراغت کے بعد اپنے گاؤں بڈھیمال کے اس مدرسے میں جو مولانا عبدالرحمٰن مرحوم نے مدرسہ رحمانیہ کے نام سے جاری فرمایا تھا، درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور مسجد کی خطابت وامامت بھی انہی کے سپرد ہوئی۔رمضان المبارک میں نماز تراویح بھی یہی پڑھاتے تھے۔ حافظ احمداللہ صاحب نے قرآن مجید بغیر کسی استاد کے اس وقت اپنے گاؤں بڈھیمال میں یاد کیا تھا جب وہ اپنے کھیتوں میں مویشی چرایا کرتے تھے۔پھر قرآن کی تجوید کا شوق ہوا تو ضلع حصار کے کسی مقام پر ایک استاذ کی خدمت میں گئے۔اس گاؤں میں فیصل آباد کے مشہور واعظ، قاری عبدالحفیظ کے والد بھی قرآن پڑھتے تھے جو نابینا تھے۔حافظ احمداللہ ان کو قرآن یاد کراتے تھے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد حافظ احمداللہ کی شادی بڈھیمال میں اپنی پھوپھی کی بیٹی سے ہوئی۔اس نیک بخت خاتون کے والد کا نام صوفی عنایت اللہ تھا جو کسی عالم کا وعظ سن کر دنیوی معاملات سے بالکل دست کش ہوگئے تھے۔میں نے ان کو دیکھا ہے۔وہ ایک ولی اللہ بزرگ کی حیثیت سے مشہور تھے۔صاف ستھرا سفید لباس پہنتے تھے اور فرید کوٹ میں تانگوں کے اڈے کے پاس کہیں رہتے تھے۔ان کے بیٹے کا نام مولانا عطاء اللہ تھا جو باعمل عالم تھے اور کچھ عرصہ بڈھیمال کے مدرسہ رحمانیہ میں طلباء کو پڑھاتے بھی رہے تھے۔جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے لائبریرین عبدالقیوم ضیاء انہی کے اخلاف میں سے ہیں۔ حافظ احمداللہ کے دو بیٹوں حافظ عبدالعزیز علوی اور حافظ عبدالکبیر کی ولادت بڈھیمال ہی میں ہوئی تھی۔ تعلیم وتعلم کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بڈھیمال میں کبڈی، مگدر وغیرہ ورزشوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جس میں شیخ الحدیث مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی (متوفی 9۔مئی 1987) اور صاحب ترجمہ حافظ احمداللہ بھی حصہ لیتے تھے، وہ ان حضرات کی جوانی کا زمانہ تھا۔ اگست 1947میں برصغیر آزاد ہوا اور پاکستان معرض قیام میں آیا توحالات بالکل بدل گئے۔ان لوگوں نے پاکستان آکر ایک گاؤں(چک نمبر 36 گ ب) میں سکونت اختیار کرلی۔اس اجنبی فضا اور غیر مانوس علاقے میں شروع شروع میں ان حضرات کو ایسے پریشان کن حالات کا سامنا کرنا پڑا جن کا انھیں کبھی تصور بھی نہیں ہوا تھا۔ چک نمبر 36 گ ب میں حافظ احمداللہ کھتی باڑی کرنے لگے۔محدود پیمانے پر گاؤں میں درس وتدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔لیکن اس کے بعد حالات میں کچھ تبدیلی آئی اور لوگوں کو ان کے علم وقابلیت کا پتا چلا تو انھیں گاؤں سے باہر نکلنے کا موقع ملا۔اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے(ممکن ہے اس تفصیل کے بیان میں ترتیب زمانی قائم نہ رہ سکے۔) 1۔اس زمانے میں تاندلیاں والا کے قریب چک نمر 405 گ ب کمیانہ میں ایک نوجوان حافظ عبدالحق فروکش تھے۔اس گاؤں میں اہلحدیث کے صرف دو تین گھر تھے، باقی سب لوگ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔حافظ عبدالحق اچھے خاصے زمیندار تھے۔اپنے گاؤں میں وہ ایک دینی مدرسہ قائم کرنا چاہتے تھے اور مدرس کے علاوہ انھیں مسجد میں کسی حق گوخطیب کی بھی ضرورت تھی۔
Flag Counter