Maktaba Wahhabi

366 - 665
فرمائے اور میں نے ان پر اپنے زمانہ ادارت میں ”الاعتصام “میں بھی تبصرے کیے اور ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ترجمان ”المعارف“میں بھی کئی حصوں پر تبصرے کیے۔اس ماہنامے کی ادارت میرے سپردتھی۔ مولانا علی محمد سعیدی نے6۔جولائی1987؁ء(9ذیقعدہ 1407؁ء)کو وفات پائی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا ممدوح کی اولاد نرینہ چھ بیٹے ہیں۔مختصر الفاظ میں ان کا تعارف یہ ہے: 1۔قاری محمد ادریس :ناظم جامعہ سعید یہ للبنات مرضی پورہ خانیوال۔ خطیب جامع مسجد اہل حدیث۔ 2۔قاری محمد انس: کاروبار کرتے ہیں۔ 3۔حافظ خبیب احمد:ناظم جامعہ سعید یہ خانیوال۔ 4۔حافظ محمد زید: کاروبار کرتے ہیں۔ 5۔حافظ ظہیر احمد : مدرس مدرسہ عمار بن یاسر۔ ڈیرہ غازی خاں۔ 6۔قاری صہیب احمد: مدرس جامعہ صدیقہ۔ عارف والا۔ مولانا علی محمد سعیدی کے داماد اور بھتیجے حافظ ڈاکٹر عبدالرشید اظہر ہیں جو مشہور عالم اورمعروف خطیب ہیں۔ اللہ نے ان کو بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان کی دعوت پر چند دوستوں کے ساتھ 9۔10۔مارچ 2007؁ءکو مجھے جامعہ سعیدیہ (خانیوال) میں حاضری کا موقع ملا۔داکٹرصاحب خود تو اسلام آباد رہتے ہیں، لیکن جامعہ کے معاملات پر پوری نگاہ رکھتے ہیں۔ مجھے یہ ادارہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور یہ اندازہ بھی ہوا کہ اس کے زیادہ تر معاملات کا تعلق ڈاکٹر صاحب ممدوح سے ہے۔ اور یہ لائق تحسین بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے بزرگوں کے قائم کردہ اس تدریسی ادارے کی بہ طریق احسن نگرانی کر رہے ہیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ مولانا علی محمد سعیدی اور صوفی ولی محمد کو جنت الفردوس میں داخل فرمائے اور جو حضرات اس وقت جامعہ سعیدیہ کے متعلق کسی طرح بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی خدمات قبول فرمائے اور انھیں صحت و عافیت کی طویل زندگی سے نوازے۔آمین۔
Flag Counter