Maktaba Wahhabi

365 - 665
اسی طرح مولانا ندوی نے”الاعتصام “کے ابتدائی دور میں”قرآن کی منتخب آیات کی تفسیر“کے عنوان سے تفسیر شروع کی تھی جو کئی شماروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ مجھے پاکستان، ہندوستان اور سعودی عرب کے متعدد حضرات نے خطوط لکھے کہ میں ان تفسیری مضامین کو جمع کر کے کتابی شکل میں چھپوانے کا اہتمام کروں۔ بعض ناشروں نے بھی اس کام کے لیے اصرار کیا۔ لیکن میں ابھی تک یہ کام نہیں کر سکا حالانکہ یہ کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک کام مکمل ہوگیا۔ مولانا نے”چہرہ نبوت قرآن کے آئینے میں“کے عنوان سے قرآن کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھنا شروع کی تھی۔ میں اس وقت ”الاعتصام “ایڈیٹر تھا۔ اس کی پہلی قسط 2۔ دسمبر1960؁ءکے شمار ے میں اور آخری قسط 7۔ستمبر 1962؁ءکے شمارے میں چھپی تھی۔یہ کل 62قسطیں تھیں۔ لیکن مضمون نامکمل رہا تھا۔ مولانا ندوی اسے مکمل کرنا چاہتے تھے۔بارہا میں نے اس کی تکمیل کے لیے ان سے عرض کیا۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر ایس ایم اکرام کو اس کا علم تھا۔انھوں نے بھی کئی دفعہ کہا وہ اسے کتابی صورت میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کی طرف سے شائع کرنا چاہتے تھے۔ بہر حال ان کی وفات کے بعد اس فقیر نے کسی نہ کسی طرح اس کی تکمیل کی کوشش کی ہے۔سواتین صفحات کی یہ کتاب علم و عرفان پبلشرز اُردو بازار، لاہور نے شائع کی ہے۔کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ فقیر جب خود کچھ نہیں کر سکا تو دوسروں سے کہنے کا کیا حق رکھتا ہے کہ وہ فلاح ادھورا کام مکمل کردیں۔ مولانا علی محمد سعیدی بلند اخلاق اور عالی کردار عالم دین تھے۔ بے حد منکسر و متواضع، حلیم الطبع اور نرم مزاج، دھیمے انداز سے بات کرتے اور خندہ روئی سے پیش آتے۔ میں 1948؁ءسے 1965؁ءتک مرکزی جمعیت اہل حدیث کی نطامت اور الاعتصام کی ادارت کے سلسلے میں خدمت انجام دیتا رہا۔اس وقت یہ دفاتر شیش محل روڈ پر تھے۔ مولانا ممدوح کسی کام سے لاہور تشریف لاتے تو مجھے ضرور یاد فرماتے۔ یہ ان کی مہربانی تھی۔ 1965؁ءکے اکتوبر میں یہ فقیر ادارہ ثقافت اسلامیہ سے منسلک ہو گیا تو بارہا ایسا ہوا کہ وہ لاہور آئے اور کلب روڈ پر ادارہ ثقافت اسلامیہ کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں مجھے بھی ملے اور مولانا محمد حنیف ندوی سے بھی گفتگو کی۔ مولانا ندوی کی علمیت اور ان کے اسلوب کلام سے بہت متاثر تھے۔ مولانا ندوی پر بھی ان کے کام، ان کے انکسار، ان کی محنت اور ان کی دینی خدمات کا بڑا اثر تھا۔انھوں نے بارہا مجھے خانیوال حاضری کی دعوت دی، لیکن افسوس ہے میں مصروفیات یا کاہلی کی بنا پر ان کے ارشاد کی تعمیل نہ کر سکا۔انھوں نے مجھے فتاویٰ علمائے اہل حدیث کے مختلف حصے عنایت
Flag Counter