Maktaba Wahhabi

355 - 665
1981ء)بھی کچھ عرصہ وہاں تحصیل علم کرتے رہے تھے۔[1] بعد ازاں کئی سال موضع بھینی سندھواں(ضلع امرتسر) میں ان کا سلسلۂ تدریس وخطابت جاری رہا۔بھینی سندھواں ایک گاؤں تھا، جسے اس نواح میں اہلحدیث کے مرکز کی حیثیت سے حاصل تھی۔وہاں ایک زور دار عالم دین مولانا عطاء اللہ صاحب سکونت پذیر تھے، جنھیں اگست 1947ء میں سکھوں نے شہید کردیا تھا۔[2] تقریباً تین سال مولانا عبدالحق قصبہ”پٹی“ میں اقامت گزین رہے۔اس شہر نما قصبے میں اہل حدیث بڑی تعداد میں آباد تھے۔ان کی کئی مسجدیں تھیں اور ایک مدرسہ تھا۔وہاں کی کھجور والی مسجد میں مولانا عبدالحق خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے تھے اور مدرسے میں ان کی تدریسی سرگرمیاں جاری تھیں۔وہاں ان سے مولانا محمد یحییٰ مرحوم حافظ آبادی، حکیم عبدالرحمٰن آزاد(گوجرانوالہ) حافظ عبدالرحمٰن پٹوی اور دیگر متعدد حضرات نے اکتساب علم کیا۔ پھر حالات ایسے پیدا ہوئے کہ مولانا ممدوح پٹی کی تدریسی اور خطابتی خدمات سے دستبردار ہوکر اپنے وطن(سنگھاں والا) چلے گئے۔وہ نہایت خوش اخلاق، عالی کردار، مہمان نواز، تہجد گزار اور متحمل مزاج عالم دین تھے۔تعلیم وتدریس ان کی زندگی کا شب وروز کا مشغلہ تھا۔طلباء ان کے طریق تدریس سے بہت متاثر تھے۔ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ اہل علم کے قدردان تھے۔ اگست 1947ء کے خون آشام زمانے میں سکھوں نے ان کو شہید کردیا تھا۔ان کے سامنے پہلے ان کے بیٹے حافظ محمد یونس اور گھر کے دیگر افراد کو شہید کیا۔پھر خود ان پر تلوار سے حملہ کیا اور وہ جام شہادت نوش کرگئے۔اسی حملے کے دوران میں کسی طرح ان کی اہلیہ محترمہ اپنے بچوں قاری محمد عزیر وغیرہ کو لے کر وہاں سے نکلیں اور کسی قافلے کے ساتھ چلتے چلتے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئیں۔ سرحد سے چند میل کے فاصلے پر موضع میر محمد تھا جہاں کئی سال مولانا عبدالحق کا ہنگامہ درس وتدریس برپا رہا تھا اور ان کی اہلیہ بھی اس وقت وہیں رہتی تھیں۔یہ لٹے پٹے لوگ وہاں پہنچ گئے اور کچھ عرصہ حافظ محمد یحییٰ میر محمدی کے والد حافظ محمد مرحوم کے مہمان رہے۔اس کے بعد لاہور آگئے۔اسی وقت سے مولانا عبدالحق شہید کے فرزند گرامی قاری محمد عزیر لاہور میں اقام گزیں ہیں۔انھوں نے لاہور کی آبادی گلشن راوی کے ایف بلاک میں”جامعۃ العلوم الاسلامیہ“ کے نام سے ایک ادارہ قائم
Flag Counter