Maktaba Wahhabi

307 - 665
سرانجام دینے کی دعوت دی اور حضرت مرحوم نے اپنی خدمات اس مدرسے کے سپر فرمادیں۔دہلی کے مدرسہ دارالسلام اور وہاں کی مسجد کلاں میں بھی ان کی تدریس کے ہنگامے جاری رہے۔ان کی خدمت تدریس برما تک پہنچی تو اس کے دارالحکومت رنگون کی جامع مسجد اہلحدیث کے اصحابِ نظام انھیں وہاں لے گئے۔رنگون میں اہلحدیث خاصی تعداد میں آباد تھے اور اہلحدیث کے اخبار بھی وہاں جاری تھے۔متعدد علمائے کرام بھی اس ملک میں سکونت پذیر تھے۔ دہلی اور رنگون میں کافی عرصہ حضرت مولانا کھنڈیلوی کا تدریسی سلسلہ جاری رہا۔بعد ازاں عزمِ کھنڈیلا ہوئے اور وہاں”مصباح العلوم“ کے نام سے مدرسے کا اجراء فرمایا۔کھنڈیلا، پنجاب اور دہلی وغیرہ سے بہت دور تھا اور طلباء کا وہاں پہنچنا مشکل تھا، اس لیے رمضان المبارک کے بعد مولانا دہلی تشریف لے آتے اور وہاں کے مختلف مدارس کے چکر لگا کر طلبا کو اپنے ساتھ کھنڈیلا لے جاتے تھے۔طلباء پر وہ نہایت شفقت فرماتے۔ان سے بہت ہی نرمی اور محبت کا سلوک کرتے اور ان کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے۔ تقسیم ملک کے بعد کچھ عرصہ وہ کھنڈیلا میں اقامت گزیں رہے، پھر پاکستان تشریف لے آئے اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی دعوت پر لاہور چینی والی مسجد میں طلباء کو پڑھانا شروع کیا۔اس وقت اس مسجد میں دینی مدرسہ قائم تھا، جس کے مہتمم مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے۔ 1948ء میں جب امرتسر کے دارالعلوم تقویۃ الاسلام(مدرسہ غزنویہ) کے لیے شیش محل روڈ پر نئی رنگ الاٹ ہوئی تو چینی والی مسجد کے مدرسے کو بھی وہاں منتقل کردیا گیا اور مولانا کھنڈیلوی مرحوم کا سلسلہ تدریس وہاں جاری ہوگیا، لیکن اس دارالعلوم میں مولانا مرحوم کی خدمت تدریس کا عرصہ بہت قائم رہا اور حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ مولانا واپس ہندوستان تشریف لے گئے اور ان کی خدمات صوبہ بہار کے مدرسہ احمدیہ سلفیہ(دربھنگا) کے اصحابِ اہتمام نے حاصل کرلیں۔لیکن حضرت مرحوم کے فرزندانِ گرامی چونکہ پاکستان آگئے تھے۔اس لیے وہ بھی مستقل طور سے پاکستان آگئے اور اوکاڑہ کے مدرسہ دارالحدیث میں(جو اُس وقت قاضی محمد رمضان کی مسجد میں جاری تھا) ان کی تدریسی مساعی شروع ہوگئیں۔وہیں اوپر کی منزل میں ان کی رہائش تھی۔ حضرت مرحوم کم وبیش 45 سال کامل انہماک اور دلی لگن سے برصغیر کے مختلف مدارس میں طلباء کو اپنے فیوض علمیہ سے مستفیض فرماتے رہے۔اس اثناء میں راجستان، دہلی، میوات، یوپی، بہارہ، آسام اورپنجاب کے ہزاروں شائقین علم نے ان کے دائرہ شاگردی میں شامل ہونے اور ان سے استفادہ کرنے کا شرف حاصل کیا۔ ان کا طریق تدریس بے حد دل آویز تھا۔مطالعہ کرکے نہایت محنت سے پڑھاتے اور اپنی
Flag Counter