Maktaba Wahhabi

306 - 665
مولانا ممدوح کے والد کا نام دادارنجش(یا دادرنجش) تھا اور وہ اپنے علاقے کے مشہور طبیب تھے۔جد امجد کا اسم گرامی جمال الدین خاں تھا۔خاندانی پیشہ تجارت تھا۔ مولانا مرحوم ہندوستان کے صوبہ راجستان کے ضلع جئے پور کے ایک شہر کھیتری میں 1897ء (1314ھ) کے پس وپیش پیدا ہوئے۔ناظرہ قرآنِ مجید اپنے شہر کے حافظ اللہ بخش سے پڑھا۔سرکاری اسکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔اسی اثناء میں والد محترم سے فارسی اور صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔حصولِ علم اور دینی مسائل سے آگاہی کا بے حد شوق تھا اور بارگاہِ الٰہی سے ذہن اخاذ عطا ہوا تھا۔سبق نہایت غور سے پڑھتے اور جو کچھ پڑھتے، باآسانی ذہن میں محفوظ ہوجاتا۔ادھر اُدھر گھومنے اور کھیل کود سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ حکیم دادارنجش اپنے اس بچے کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے متمنی تھے۔چنانچہ انھوں نے ہونہار بیٹے کو دہلی بھیج دیا۔جہاں اس وقت دینی تعلیم کے متعدد مراکز قائم تھے۔وہاں اس لائق طالب علم نے مولانا عبدالوہاب دہلوی، مولانا احمد اللہ، مولانا عبدالوہاب(نابینا) مولانا حافظ عبدالرحمٰن شاہ پوری(برادر مولانا فقیراللہ مدراسی) مولانا شرف الدین اور مولانا عبدالرحمٰن ولایتی سے تفسیر وحدیث، فقہ واصول، بیان ومعانی، اورمختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں۔پھر پنجاب کا قصد کیا اور ضلع فیروز پور کے مرکز تدریس موضع”لکھو کے“ آئے۔وہاں حضرت مولانا عبدالقادر لکھوی اور ان کے فرزند عالی قدر مولانا عطاء اللہ لکھوی سے استفادے کے مواقع حاصل ہوئے۔بعد ازاں روپر گئے جو اس وقت ضلع انبالہ کا تحصیلی مقام تھا، اب ضلعی مقام ہے۔وہاں مولانا حافظ عبداللہ روپڑی کی مسند تدریس آراستہ تھی، ان سے مستفیض ہوئے۔حضرت مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری کے حلقہ تلامذۃ میں شمولیت کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔اس طرح انھوں نے 1917ء(1335ھ) تک مروجہ علوم دینیہ کی تکمیل کے تمام مراحل طے کرلیے اور جہاں گئے وہاں کے اساتذہ سے بدرجہ غایت محنت اور انہماک سے پڑھا۔ان کے تمام اساتذہ کو جن کا ابھی ذکر کیا گیا ہے۔متد اول علوم وفنون میں مہارت کی بنا پر اُس عہد میں اساطین کی حیثیت حاصل تھی۔لائق شاگرد نے ان کے طریق تعلیم سے خوب استفادہ کیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ضلع جے پور کے شہر کھنڈیلا کواپنا مسکن بنایا اور درس وتدریس کے لیے زندگی وقف کردینے کا فیصلہ کیا۔سب سے پہلے کھنڈیلا میں اشاعۃ القرآن والحدیث کے نام سے مدرسہ قائم کیا اور کچھ عرصہ وہاں فریضہ تدریس سرانجام دیتے رہے۔لیکن وہاں طلباء کی تعداد بہت محدود تھی اور علاقہ علمی مراکز سے دور تھا۔ دہلی میں حافظ حمیداللہ صاحب مرحوم نے مدرسہ حمیدیہ جاری فرمایا تھا۔انھوں نے مولانا عبدالجبار صاحب کھنڈیلوی کو اس مدرسے خدمت تدریس
Flag Counter