Maktaba Wahhabi

296 - 665
داؤدغزنوی سے ملے کہ وہ کسی وزیر یا کسی اور سرکاری افسر سے کہہ کرانھیں اپنے گاؤں(لکھو کے) کی زمین کے بدلے میں زمین دلادیں۔مولانا غزنوی انھیں زمینوں کی الاٹ منٹ کے محکمے کے کسی بڑے اہل کار کے پاس لے گئے۔مولانا لکھوی فرماتے ہیں کہ”میں حسب معمول بالکل سادہ لباس میں تھا اور مجھے حکام سے ملنے اور کسی سلسلے میں ان سے گفتگو کرنے کے ادب آداب کا علم نہ تھا اور میں وہاں خاموش بیٹھا تھا، لیکن مولانا غزنوی نے اس اہل کار کے سامنے میری اتنی تعریف کی اور میرا ایسے الفاظ میں اس سے تعارف کرایا کہ مجھے شرم آنے لگی۔“ حافظ شفیق الرحمٰن لکھوی کسی زمانے میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام(لاہور) میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔مولانا غزنوی کا اندازان سے ہمیشہ شفقت کا رہا۔مولانا نےکبھی ان کو نام لے کر نہیں پکارا، جب بھی ان سے بات کی انھیں”حافظ صاحب“کہہ کرمخاطب فرمایا۔ حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی مدرسہ محمدیہ(یا جامعہ محمدیہ) میں کم وبیش 48 برس خدمت تدریس میں مشغول رہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس درسگاہ کو انہی کے طریق تدریس کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی اور بے شمار طلباء وعلماء نے ان کے سامنے زانوئے شاگردی طے کیے اور انھیں”استاذ پنجاب“ کا لقب عطا ہوا، جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے شاگردوں کے شاگرد بھی مختلف مدارس کی مساند درس پر متمکن ہیں۔ مولانا ممدوح بے حد قناعت پسند اورایثار پیشہ عالم دین تھے۔ان کے تلامذہ کرام کی وسیع فہرست میں چند حضرات کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔ مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی: موصوف بہت بڑے عالم ومحقق اور معلم ومصنف تھے۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیاتی: مشہور مدرس اور شارح سنن نسائی۔ مولانا عبداللہ اوڈ: غرباء اہل حدیث پنجاب کے امیر تھے۔ مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی: ان سے لاتعداد حضرات نے اخذ فیض کیا۔ مولانا عبدالرحمٰن بھوجیانی: مشہور عالم تھے۔اگست 1947ء میں شہادت پائی۔ مولانا عبداللہ بھوجیانی: ممتاز عالم ومدرس۔اگست 1947میں شہید ہوئے۔ مولانا عبدالرحیم بھوجیانی: نامور مدرس۔اگست 1947 کو جام شہادت نوش کیا۔ مولانا عطاء اللہ بڈھیمالوی: بڈھیمال(ضلع فیروز پور مشرقی پنجاب) کے مشہور عالم سید مولابخش کوموی: موضع کوم ضلع لدھیانہ مشرقی پنجاب کے صالح ترین بزرگ۔تقسیم ملک کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ آگئے تھے، وہیں فوت ہوئے۔
Flag Counter