Maktaba Wahhabi

287 - 665
کے اس درس سے بے شمار اصحاب علم نے استفادہ کیا۔ وہ لوگ ان کی ذہانت، علوم حدیث میں مہارت اور طریق تدریس سے نہایت متاثر تھے۔کافی عرصہ مکہ معظمہ کے اس مدرسے میں ان کا سلسلہ تدریس جاری رہا۔پھر مراجعت فرمائے وطن اور اپنے آبائی گھر لکھنؤآگئے۔اس وقت اس کی عمر انتیس برس کی ہوگئی تھی۔ لکھنؤ میں ا ن کا قیام بہت مختصر رہا۔ وہاں سے جامعہ ملیہ دہلی کا رخ کیا۔ جامعہ ملیہ میں اس زمانے میں مولانا محمد سورتی تفسیر قرآن کے استاذ تھے، مولانا سورتی عربی کے جلیل القدر عالم تھے۔وہ سید ابو الخیر کے علم و فضل کی فراوانی سے انتہائی متاثر ہوئے۔ اسی بنا پر وہ سید ابو الخیر کو ”الامام“ کے لقب سے یاد فرمایا کرتےتھے۔ ممتاز عالم ڈاکٹر تقی الدین ہلالی بھی سید ممدوح کو امام کہا کرتے تھے۔ یعنی امام فی العلم۔ جامعہ ملیہ سے سید ابو الخیر حیدر آباد (دکن) تشریف لے گئے اور کچھ مدت وہاں مقیم رہے۔ پھر لکھنؤ آگئے اور باقی تمام زندگی لکھنؤ میں بسر کردی۔ لکھنؤ کے محلہ چکمنڈی مولوی گنج میں انھوں نے ہو میو پیتھی دواخانہ قائم کر لیا تھا۔وہاں طریق علاج میں مہارت رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کے علاج سے مریضوں کا شفا بخشتا تھا۔ سید ابو الخیر کاحافظہ مضبوط تھا اور اس میں بہت کچھ محفوظ تھا۔ اس اعتبار سے اسے علم و کمال کا خزانہ کہنا چاہیے۔ تفسیر، حدیث، اسماء الرجال، نساب، تاریخ، لغت، اشعار، مشتقات، زبان و ادب عربی اور اُردو کے قواعد وغیرہ بے شمار باتیں انھیں زبانی یاد تھیں اور اس باب میں وہ درجہ امامت پرفائز تھے۔ اس موضوع پر ان کے معاصرین میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، اسی لیے مولانا محمد سورتی اور ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی انھیں”امام“کہا کرتے تھے یعنی مدراس دینیہ کے تمام مروجہ علوم میں ماہر کامل، انھیں ستر ہزار سے زائد حدیثیں مع اسنادوروات کے زبانی یاد تھیں۔ عربی اور اُردوکے ہزاروں اشعار ان کی نوکِ زبان تھے۔ انگریزی زبان وادب سے بھی انھیں آشنائی تھی۔ کتب شیعہ پر بھی عبور حاصل تھا اور ان کی روایات کا وسیع ذخیرہ مع اسناد کے وہ بے تکلفی سے بیان فرمایا کرتے تھے۔ اپنے دور کے شاعر بھی تھے۔ ابتدا میں شمس تخلص کرتے اور شمس لکھنوی کہلاتے تھے۔ مشہور مناظر بھی تھے۔ بالخصوص شیعہ حضرات سے ان کی ٹکر رہتی تھی۔ گفتگو میں لکھنؤ کے بڑے بڑے شیعہ مجتہدین کا ناطقہ بند کردیتے تھے۔ علمی معلومات کے اعتبار سے چلتا پھرتا کتب خانہ تھے۔ تدریس، شعر و شاعری اور دیگر اوصاف کے علاوہ تصنیف و تالیف کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ بہت کچھ لکھا، لیکن افسوس ہے، ان کی تحریرات کی طباعت کا زیادہ اہتمام نہ ہوا، جس کی وجہ سے بعض مسودے ضائع ہوگئے۔ جو مسودات ان کی وفات تک محفوظ تھے، ان میں سے چند یہ ہیں۔
Flag Counter