Maktaba Wahhabi

239 - 665
اس جلسے میں ملک کے مشہور اور ممتاز اہل علم شریک ہوتے تھے۔ ان اہل علم میں حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی، نواب محسن الملک، ڈپٹی نذیر احمد، علامہ شبلی نعمانی اور مولوی ذکاء اللہ کے نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے آرہ کے اس سالانہ جلسے میں شرکت فرمائی۔ 25۔دسمبر 1970؁ء کے اخبار الاعتصام میں مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کے متعلق ایک عالم دین مولانا عبدالمالک آروی مرحوم کا مضمون شائع ہوا تھا۔اس وقت اس اخبار کے ایڈیٹر مولانا عطاء اللہ حنیف تھے۔ مضمون نگار نے مولانا آروی کے بارے میں تحریر فرمایا تھا۔ ”مولانا مرحوم نہایت حسین اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے۔گورے چٹے، اعضا متناسب، رموز پہلوانی سے واقف ضاعی میں بیگانہ، موسیقی کے ماہر، شعلہ بیان خطیب، فصیح و بلیغ شاعر، کہنہ مشق انشا پرواز، پختہ قلم خطاط، محدث، مترجم، عربی، فارسی، اُردو زبانوں پرقادر، انگریزی سے بقدرِ ضرورت آشنا۔ یہ تھیں صفات ہمارے وطن کے اس بدیعہ روز گار انسان کی جو پاکبازی کا پیکر اور تقدس وروحانیت کا مجسمہ تھا، جس کی باتیں رفقا کے لیے دام تسخیر تھیں اور جس کی زندگی کے کار نامے آئندہ نسلوں کے لیے مشعل ہدایت تھے۔“ مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کا اُس دور کے مطابق آرہ میں بہت بڑا کتب خانہ تھا۔اس کتب خانے سے علامہ شبلی اور مولوی ذکاء اللہ جیسے ناموراہل علم اور اپنے وقت کے معروف ادیب استفادہ کرتے تھے۔ وہ کئی کئی دن وہاں آکرقیام فرماتے اور مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کی علمیت اور ان کی لائبریری سے مستفید ہوتے تھے۔[1] مولانا آروی بڑے مہمان نواز تھے۔ ان کے مطبخ میں مہمانوں کے لیے انواع اقسام کے کھانے تیار ہوتے تھے۔مولانا کی اپنی خوراک تو بالکل معمولی تھی۔موٹے چاول، دال اور ساگ ترکاری وغیرہ پر اکتفا کرتے تھے۔ لیکن مہمانوں کے لیے پُر تکلف کھانا تیار کیا جا تا تھا۔ مولانا ممدوح گھر سے آسودہ حال تھے۔ ان کے والد نے کافی دولت چھوڑی تھی لیکن وہ اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔سرمے دانی کی صنعت کے ماہر تھے اور اپنے ہاتھ سے سرمے دانیاں بناتے تھے۔ اس کے لیے بازار سے جو سامان خریدا جاتا تھا، وہ خود اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے تھے۔ اپنے ذاتی کام خود انجام دیتے تھے، کسی کوکوئی تکلیف نہ دیتے تھے۔نہ مدرسے کے طلبا سے کوئی کام کراتے تھے اور نہ مدرسے سے کوئی پیسا لیتے تھے۔ مولوی عبدالمالک آروی کے بقول
Flag Counter