Maktaba Wahhabi

238 - 665
سند اجازت حاصل ہوئی۔“ حجاز جانے سے قبل حضرت مولانا میاں نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کتب حدیث کی تکمیل کی اور سند سے مفتحر ہوئے۔ ہندوستان کے اہل علم سے استفادے کے بعد اپنے شہر آرہ میں مسند تدریس آراستہ کی اور اس علاقے میں عمل بالحدیث کی نشروشاعت کا سلسلہ شروع فرمایا۔ پھرایک وقت آیا کہ آرہ میں اپنی کوشش سے جامع مسجد تعمیر کرائی اور مدرسہ قائم کیا اور بہت بڑے پیمانے پر تدریس کا آغاز فرمایا۔ ان کے قائم کردہ مدرسے کا نام مدرسہ احمدیہ تھا، جو مدرسہ احمد سلفیہ کی صورت میں اب بھی بحمداللہ کامیابی سے جاری ہے۔ علاوہ ازیں ان حالات کے مطابق ”مطبع خلیلی “کے نام سے ایک بہت بڑا چھا پہ خانہ کھولا۔ سید سلیمان ندوی”حیات شبلی“کے حاشیہ (صفحہ 308)میں حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”نئی باتوں میں وہ اچھی باتوں کو قبول کرتے تھے۔ چنانچہ نئے طرز پر انجمن علما اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کا خیال انہی کے دل میں آیا اور انہی نے 1890؁ءمیں”مدرسہ احمدیہ“کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بہ سال جلسہ آرہ میں ہوتاتھا۔ یہ مدرسہ مدتوں خوش اسلوبی سے چلتا رہا۔1900؁ء میں والد مرحوم مجھے اس مدرسہ میں بھیجنا چاہتے تھے، مگر تقریر کچھ اور تھی۔ یہ تجویز عمل میں نہ آئی۔مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری سالہا سال اس میں پڑھاتے رہے۔ مولانا عبدالسلام مبارکپوری، مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری اور بہت سے علما ءیہاں کے شاگرد ہیں۔۔۔پھر یہ مدرسہ آرہ سے در بھنگا منتقل ہو گیا اور مدرسہ احمد یہ سلفیہ کے نام سے مشہور ہے۔“ عربی مدارس کا یہ جدید طرز کا مدرسہ احمدیہ جو حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم آروی نے جاری کیا تھا دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے مدتوں پہلے جاری ہو چکا تھا، لیکن افسوس ہے اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ سید سلیمان ندوی مرحوم نے اس کا واضح الفاظ میں ذکر فرمایا ہے اور اس مدرسے کی تعریف کی ہے۔اس سے آگے حیات شبلی کے صفحہ 311 پر سید صاحب لکھتے ہیں: ”ندوۃ کے اجلاس منعقد 1312؁ ھ کے ایک خصوصی اجلاس میں حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم آروی نے علوم جدیدہ کے اضافے کی تجویز کی تائید کی۔“ حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم آروی ہمیشہ کسی نہ کسی دینی اور علمی جدو جہد میں مصروف رہتے تھے۔ انھوں نے ”مذاکرہ علمیہ “کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا ہر سال (سالانا ) جلسہ منعقد کیا جاتا تھا۔
Flag Counter