Maktaba Wahhabi

236 - 665
دونوں آمنے سامنے بیٹھتے۔بیچ میں میزخالی ہوتی۔میرے ہاتھ میں قرآن مجید، اور کبھی میں نے حفظ پر اعتماد کیا تو قرآن بھی نہ سہی۔مولوی محمد صاحب کے گرد اگرد تراجم اور تفاسیر اورکتب لغت۔میں ایک جملے یا ایک آیت کا ترجمہ جو الفاظ قرآن سے سمجھتا بولتا اور مولوی محمد صاحب اس کو قلمبند کرتے اورپھر مجھ میں اور مولوی صاحب میں بحث ہوتی اور اختلاف کی صورت میں تراجم اور تفاسیر اور لغت کی طرف رجوع کیا جاتا۔اس طرح پر سارے قرآن کا ترجمہ کیا گیا۔براہِ راست قرآن کا ترجمہ ہے نہ کہ دوسرے ترجموں کی طرح ترجمے کا ترجمہ۔اس کا ماخذ قرآن کے الفاظ ہیں، نہ کی کسی مفسر یا مترجم کے۔پھر ہم دونوں نے ترجمہ پر نظر ثانی کی۔مولوی محمد صاحب ترجمہ پڑھتے اور میں عبارت کی سلاست اور الفاظ کی نشست کا دھیان رکھتا اور ترجمہ کو الفاظ قرآن سے ملاتا اور پھر ہم میں پہلے کی طرح بحث ہوتی۔اکثر ایسا ہوا ہے کہ بحث میں رنجش بھی ہوجاتی تھی مگر چونکہ دونوں کی نیت بخیر تھی۔اس لیے ہم دونوں نے کبھی مناظرے کی حد سے تجاوز نہیں کیا۔ابھی متفق ہوگئے، ابھی لڑے اور ابھی ملے۔ مولوی محمد صاحب کا انتقال غالباً 1901؁ء میں اوران کی اہلیہ محترمہ کا 1902؁ء میں ہوا۔تین خوردسال بچے یکے بعد دیگرے فوت ہوئے۔ایک لڑکی خدیجۃ الکبریٰ اور ایک لڑکا بچے۔انفلوئنزا کے دنوں میں ایک سال کے فرق سے یہ بہن بھائی بھی راہی ملک عدم ہوگئے۔لڑکے کا نام عبدالرحمٰن تھا۔ اور باپ ہی کی طرح بہت خلیق اور صالح جوان تھا۔مولوی صاحب مرحوم کے تین نواسے اور ایک نواسی پاکستان میں بقید حیات ہیں۔صاحب اولاد ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔ مولوی محمد مرحوم کے اعزا نے ان کے لڑکے مولوی عبدالرحمٰن کے نام تین سوبیگھے زمین ان کے حصے کی داخل خارج کرادی تھی جس کی آمدنی وہ کئی سال تک لیتے رہے۔اب معلوم نہیں انقلاب کے بعد وہ زمین کس کے قبضے میں ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کے رشتے دار سب کے سب حق پسند اور شریف انسان تھے۔ منشی عبدالقدیر کا مضمون ختم ہوا۔اس کا خلاصہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے تعلیقات نسائی کے شروع میں بزبان عربی دیا ہے۔اس سے حضرت مولانا ابوعبدالرحمٰن محمد پنجابی کی خدمت حدیث کے بارے میں مساعی جمیلہ کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے۔
Flag Counter