Maktaba Wahhabi

235 - 665
صورت پیدا کردے گا۔اسی فکر میں کہ اب کیا کیا جائے وہ دریا پار ایک گاؤں میں وہاں کے نمبر دار سے جو نابینا تھا مشورے کے لیے گئے۔نمبردار بہت بارسوخ اور ہردلعزیز تھا۔ اس نے کہا مولوی صاحب گھبرانے کی بات نہیں، خداکارساز ہے۔ ان شاء اللہ جو ہوگا بہتر ہوگا۔اس کے بعد اس نے ان کا لائحہ کارمرتب کیا اور وہ قصبے میں واپس آگئے۔چند روز بعد دیوالی کا تہوار تھا۔گھر میں چراغاں ہوا۔خوب زور شور سے تہوار منایا گیا۔رات کے آخری حصے میں یکے بعد دیگرے سب گھروالوں پر نیند غالب آگئی تو وہ خدا پر بھروسا کرکے مع اہلیہ محترمہ کے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔قصبے کے باہر کچھ فاصلے پر ان کو دو گھوڑے تیار کھڑے ملے۔دونوں میاں بیوی گھوڑوں پر سوار ہوکر دریا کے کنارے پہنچے۔وہاں دو کشتیاں پہلے سے موجود تھیں۔دونوں ایک کشتی پر سوار ہوکر دریا پار کرگئے اور نابینا نمبردار کے مکان پر پہنچے۔علی الصباح اس گاؤں کی مسجد میں ان کی اہلیہ مشرف بہ اسلام ہوئیں۔تجدید نکاح اور ایجاب وقبول ہوا اور نمبردار نے اپنے آدمیوں کی معیت میں اس خوش قسمت جوڑے کو دہلی روانہ کردیا۔پروگرام یہ تھاکہ دوگھوڑے تو میاں بیوی کے واسطے تھے ہی مگر دریا تک راستے کے دونوں جانب تقریباً دوسولٹھ بند زمیندار بھی حفاظت کے لیے راستے کے دوریہ اس طرح کھڑے تھے جیسے وائسرائے کی گزرگاہ پر پولیس یا فوج کے جوان کھڑے ہوتے ہیں۔ جوں جوں ان کے گھوڑے آگے چلتے گئے، زمیندار سمٹ سمٹ کران کے پیچھے چلتے گئے اور کشتیوں پر سوار ہوکر دونوں کی طرف سے باراتی بن گئے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ کشتیوں کو دریا کے پار اس وقت تک نہیں جانے دیا گیا جب تک کہ میاں بیوی دہلی روانہ نہ ہوگئے۔ صبح گھروالوں نے جب دونوں غائب پایا تو کہرام مچ گیا۔اہلیہ محترمہ کے والد کو بادل ناخواستہ اطلاع دی گئی جو فرط غم میں اس جوڑے کو ڈھونڈنے نکلے اور اس کے بعد وہ آج تک واپس نہیں آئے اور نہ وہ اپنی لڑکی اور داماد سے کہیں ملے۔ دہلی میں مدت مدید رہنے کے بعد جب مولوی محمد صاحب صاحب اولاد ہوگئے تو مع بال بچوں کے فرید آباد تشریف لے گئے مگر اس مرتبہ ان کے والد بزرگ وار کا انتقال ہوچکا تھا۔پھر اس کے بعد بھی باربار وطن جاتے رہے اور عزیزوں سے ملتے رہے۔ان کے بڑے بھائی سردار کا ہن سنگھ بھی ملنے کے لیے دومرتبہ دہلی آئے۔خط وکتابت بھی ہوتی رہی اور تمام اختلاف مٹ گئے۔مولوی صاحب موصوف دہلی میں بہت ہی کثیر المشاغل رہتے تھےبے حد متقی اور ملنسار تھے۔ڈپٹی نذیراحمد صاحب نے اپنے جامع المصحف کے دیباچے میں ان کے متعلق ذیل کی عبارت لکھی ہے۔ ترجمے کے حق میں یہ ایک فال نیک تھی کہ حسن اتفاق سے مولوی ابوعبدالرحمٰن محمد صاحب ہاتھ آگئے اور وہ شروع سے آخر تک میرے شریک بلکہ ایک اعتبار سے شریک غالب اور مددگار رہے۔ہم
Flag Counter