Maktaba Wahhabi

142 - 665
اٹھایا اور فسادات ہوئے اور سخت خونریزی ہوئی۔ اس وقت مولانا عظیم آبادی کے بڑے بیٹے حکیم محمد ادریس میر پور (ڈھاکہ) میں مقیم تھے اور کتب خانے کے بہت سے اہم نوادر حکیم صاحب کے داماد بھتیجے جناب محمد ابو القاسم صاحب کی تحویل میں تھے۔فسادات کے بعد ان نوادر کا کچھ پتا نہ چلا کہ ضائع ہوگئے یا کسی اہل علم کے پاس محفوظ ہیں۔ اس عظیم الشان کتب خانے کا یہ انتہائی درد ناک انجام ہے۔ جناب محمد عزیر صاحب نے اس سلسلے میں ایک اطمینان بخش بات بھی تحریر کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اس کتب خانے سے متعلق مجھ سے جناب عبدالرقیب صاحب نے بیان کیا کہ اس کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ حکیم محمد ادریس صاحب نے خدا بخش لائبریری (پٹنہ) کودے دیا تھا۔ یہ حصہ ڈیانواں کلکشن کے نام سے اب تک محفوظ ہے۔ اس سے آگے وہ لکھتے ہیں کہ خدا بخش لائبریری کے عربی مخطوطات کی فہرست (مفتاح الکنوز) جلد سوم میں مولانا عظیم آبادی کے کتب خانے کی بے شمار کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ غیر مطبوعہ فہرست جلد چہارم میں بھی اس کتب خانے کی بہت سی کتابوں کے نام آتے ہیں۔[1] اس عظیم الشان کتب خانے کے بارے میں یہ ایک اطمینان بخش بات ہے۔اگر مولانا کی جمع کردہ کتابیں پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں منتقل ہوگئی ہیں تو بالکل صحیح مقام پر گئی ہیں۔ اہل علم ان سے علمی فوائد حاصل کریں گے اور یہ مولانا عظیم آبادی کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مولانا عظیم آبادی کا حلیہ آج جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں، 29۔اکتوبر 2006ء ہے۔آج سے سوا انیس برس پہلے 12۔جولائی 1987ء کو مولانا حنیف ندوی نے وفات پائی اورانیس برس ستائیس روز قبل 3۔اکتوبر 1987ءکو مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کا ا نتقال ہوا۔اس سے چار پانچ سال قبل(میرے خیال میں) 1982ء یا اس کے پس وپیش کی بات ہے کہ ادارہ ثقافت اسلامیہ میں مجھے اور مولانا محمدحنیف ندوی کو مولانا عطاءاللہ صاحب نے اطلاع دی کہ کراچی سےحضرت مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی کے ایک عزیز میں تشریف لائے اور آپ لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔اتفاق سے میں اس دن دفتر نہیں جاسکا تھا، اس لیے تعمیل ارشاد نہ کرسکا، لیکن مولانا محمد حنیف ندوی اطلاع ملتے ہی مولانا عطاء اللہ صاحب کے مکان پر پہنچے اور ان سے ملاقات کی۔دوسرے دن میں دفتر گیاتو مولانا ندوی
Flag Counter