Maktaba Wahhabi

111 - 665
ہوگئی تھی، پھر تابعین اور تبع تابعین کا دور سعید بھی یہاں ہوا۔اس پاک باز جماعت کے ذی شان ارکان حدیث رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے ساتھ لے کر آئے تھے، جس کی انھوں نے یہاں تبلیغ کی اور اس سر زمین کے باشندے اس سے متاثر ہوئے۔اس کے نتیجے میں بہت سے مقامات پر قال اللہ وقال الرسول کی دل نواز صدائیں گونجنے لگیں۔ لیکن اُس زمانے میں آبادیوں کا یہ قرب واتصال نہ تھا جو بعد میں ہوا۔انسانی آبادی کا دائرہ محدود تھا اور لوگ ایک دوسرے سے دور دراز مقامات پر رہتےتھے۔نہ تحریر و کتابت کا کوئی قابل ذکر سلسلہ تھا، نہ اس وقت تصنیف و تالیف کا اس نواح میں کوئی رواج ہوا تھا، نہ مدارس و جامعت کا قیام عمل میں آیاتھا اور نہ مطابع کا کوئی تصور کہیں پایا جاتا تھا۔پڑھنے پڑھانے اور حدیث کی تعلیم و تعلم کا دائرہ بہت محدود تھا، تاہم جو تھا وہ مؤثر تھا اور اس کے اثرات وو آثار آہستہ آہستہ پھیلتے گئے۔ اشاعت حدیث کی لہر تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں پوری دنیا میں ترقی کی لہر اٹھی اور پھر تعلیم کا رواج بھی عام ہوا، مدارس بھی وسیع تعداد میں جاری ہوئے، تصنیف و تالیف کے لیے بھی فضا ہموار ہوئی، مطبعے بھی قائم ہوئے اور کتابوں کی نشروشاعت بھی عام ہونے لگی۔ برصغیر کے لوگوں پر بھی اس کا اثر پڑا اور وہ اپنے اپنے انداز میں مصروف عمل ہوئے۔اسی دور (بارھویں صدی ہجری) میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تبلیغی و تصنیفی مہمات نے شہرت پائی۔پھر ان کے صاحب زادگان گرامی قدر (حضرت شاہ عبدالعزیز محدث، حضرت شاہ رفیع الدین اور حضرت شاہ عبدالقادر) اور ان کے شاگردوں کی تدریسی وتصنیفی خدمات کا ایک طویل سلسلہ چلا۔ مولانا اسماعیل شہید، میاں سید نذیر حسین دہلوی، نواب سید صدیق حسن خاں، مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری، مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا محمد ابراہیم آروی، حافظ محمد لکھوی، سید عبداللہ غزنوی، امام سید عبدالجبار غزنوی، مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی اور دیگر بہت سے حضرات عالی قدراسی سلسلۃ الذہب کےتابندہ موتی ہیں۔(رحمهم اللّٰه تعاليٰ) ان سطور میں اپنے محدود علم کے مطابق صرف حضرت مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی کے بارے میں چند گزارشات پیش کرنا مقصود ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ انھیں ”عظیم آبادی“کیوں کہا جاتا ہے اور عظیم آباد کہاں واقع ہے اور کس شہر کانام ہے۔ ویہارہ سے بہار ہندوستان کے اس وقت اٹھائیس صوبے ہیں، جن میں ایک صوبے کا نام صوبہ بہار ہے۔
Flag Counter