Maktaba Wahhabi

110 - 665
کام اہل حدیث علمائے کرام ہی کا ہے۔مولانا فرماتے ہیں: اس کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اپنے دین کے اساسی سر چشموں (قرآن و حدیث)کی طرف توجہ ہندوستان کے حنفی مسلمانوں کی جو پلٹی، اس میں اہل حدیث اور غیر مقلدین کی اس تحریک کو بھی دخل ہے، عمومیت غیر مقلد تونہ ہوئی، لیکن تقلید جامد اور کورانہ اعتماد کا طلسم ضرورٹوٹا۔[1] جماعت احناف ہی کے ایک بزرگ مولانا سید رشید احمد ارشد کا ایک مقالہ”ہندوپاکستان میں علم حدیث“کے عنوان سے ماہنامہ”البلاغ“(کراچی) میں شائع ہوا تھا۔اس مقالے میں وہ تحریر فرماتے ہیں: آخری زمانے میں حدیث کی تدریس واشاعت سے ہندوستان میں اہل حدیث کا ایک فرقہ پیدا ہوگیا تھا جو آئمہ کی تقلید کی مخالفت کرتا تھا، اس کی وجہ سے حنفی علماء میں بھی کتب حدیث کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور وہ فقہی مسائل کو احادیث کی روشنی میں ثابت کرنے پر متوجہ ہوئے۔اس طرح اس فرقے کا وجود علم حدیث کی ترقی کا باعث بنا۔[2] اس سطور میں مقالہ نگار نے اہل حدیث کے خلاف تعصب کا جوزہر یلاانداز اختیار کیا ہے، وہ تو بالکل ظاہر ہے اور ہم اس وقت اس سے تعرض نہیں کرنا چاہتے، یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اہل حدیث کے متصعب ترین مخالف کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ برصغیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے اصل مبلغ اہل حدیث ہیں۔ احناف نے اہل حدیث کو دیکھ کر اس موضوع کی طرف توجہ کی اور وہ بھی صرف اس لیے کہ کھینچ تان کر احادیث سے اپنے چند فقہی مسائل ثابت کر سکیں، اور یہ کار خیر ماشاء اللہ وہ انجام دے رہے ہیں۔ اہل حدیث فرقہ نہیں واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اہل حدیث کوئی ایسا فرقہ نہیں جو ہندوستان میں پیدا ہوا بلکہ اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس ملک کے لوگ پہلی صدی ہجری ہی میں اسلام سے آشنا ہوگئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین وارشادات سے انھیں آگاہی حاصل ہونے لگی تھی، اس لیے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہد باسعادت(15ہجری)میں اس سر زمین میں صحابہ کرام کی آمد شروع
Flag Counter