Maktaba Wahhabi

92 - 402
پاکستان بن جانے کے بعد جامع اہلِ حدیث امین پور بازار کے پہلے خطیب ہمارے استاذ مولانا محمد عبداللہ ویرو والوی تھے۔مولانا عبداللہ صاحب عالی قدر مدرس تو تھے،مگر ان کی خطابت سے لوگ مطمئن نہ تھے،جب کہ اس وقت جھنگ بازار میں مولانا سردار احمد بریلوی کا بڑا زور تھا اور شہر ومضافات میں بدعات پر مبنی مسائل پھیل رہے تھے۔ایسے حالات میں میرے والد مرحوم نے،جو انجمن اہلِ حدیث کے رکن بھی تھے،یہ بات انجمن کے اجلاس میں رکھی کہ مولانا احمد دین گکھڑوی کو لایا جائے۔چنانچہ انجمن کے فیصلے پر والد صاحب وزیر آباد گئے اور مولانا کو لے آئے۔1950ء سے 1953ء کے غالباً آخر تک وہ جامع مسجد اہلِ حدیث امین پور بازار میں خطیب رہے۔صبح کی نماز کے بعد وہ روزانہ درسِ قرآن مجید بھی دیتے تھے۔خطباتِ جمعہ کا مسلسل موضوع توحید رہا۔درمیان میں رمضان،ذی الحجہ اور محرم کی مناسبت سے البتہ خطبات دیے جاتے تھے۔ 1953ء کی تحریک تحفظِ ختمِ نبوت میں فیصل آباد میں روزانہ جامع مسجد کچہری بازار میں صبح جلسہ ہوتا اور پانچ پانچ رضاکاروں کی گرفتاری دی جاتی۔اس کے علاوہ بھی علما و مقررین اور کارکنوں کی گرفتاریاں ہوتی تھیں۔ایک روز مولانا گکھڑوی نے مرزائیت کے خلاف اور ختمِ نبوت کے اثبات میں زبردست تقریر کی۔میں نے مولانا علی محمد صمصام کی نظم ع ویکھو مرزے قادیاں والے کہیاں پایاں بھنڈیاں کئی قوماں دیاں قوماں کر گیا اے گندیاں ترنم کے ساتھ پڑھی۔میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔رات کو ہمارے مکان پر پولیس آئی۔والد صاحب باہر آئے تو پولیس مجھے اور میرے والد اور مولانا
Flag Counter