Maktaba Wahhabi

76 - 402
اور فکر و دانش کی ایک جھلک ذکر کرنا مقصود ہے کہ نئی نسل کو ان کی جماعتی خدمات اور تنظیمی و تبلیغی مصروفیات سے واقفیت ہو سکے،تاکہ ان کے درخشاں نقوش مشعلِ راہ بنائے جا سکیں اور ان کے فضل و کمالات سے بھی اکتسابِ فیض ہو سکے،اور یہ بھی معلوم ہو سکے کہ وہ کس قدر ذوقِ لطیف کے مالک اور مشفق راہنما تھے۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل اپنی خدادا صلاحیتوں کے باعث خلوص و قناعت،زہد و تقویٰ،علم و عمل،تحقیق و دانش،محدثانہ شان و عظمت،دعوت و ارشاد اور تصنیف و تالیف کے اعتبار سے مجسمۂ محاسن و خصائل تھے،جن کے اِن اوصافِ حمیدہ کے بارے میں بڑے بڑے اصحابِ فکر و نظر اور قلم و قرطاس کے شہسواروں نے سیکڑوں صفحات پر مشتمل تصانیف و رسائل کی صورت میں قلم بند کیے ہیں،خصوصاً محترم حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی) نے جس محبت و عقیدت سے مولانا مرحوم کے افکار،سوانح،مقالات اور نگارشات کو مرتب کیا ہے،اس کی مثال و نظیر بہت کم ملتی ہے۔ اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ بندۂ عاجز ان سطور کے راقم کو یہ شرف ضرور حاصل ہے کہ مولانا ممدوح کو بیشتر مجالس و محافل میں ملنے جلنے اور ان کی فصیح و بلیغ گفتگو سننے کے مواقع میسر آئے اور جماعتی سطح کی بہت سی تبلیغی و دعوتی کانفرنسوں میں ہم سفر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔نوزائیدہ مملکتِ پاکستان بننے کے بعد جماعت اہلِ حدیث کو منظم کرنے کے لیے انھوں نے حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کو آمادہ کیا اور پھر دونوں نے ملک کے اطراف و اکناف سے ممتاز علما اور احبابِ مسلک کو مدعو کر کے لاہور تقویۃ الاسلام میں ’’مرکزی جمعیت اہلِ حدیث‘‘ کے نام سے تنظیم کی داغ بیل ڈالی،جس کے صدر مولانا غزنوی اور ناظمِ اعلیٰ مولانا سلفی منتخب کیے گئے،ابتدا میں پروفیسر عبدالقیوم ناظم
Flag Counter