Maktaba Wahhabi

63 - 402
غزنوی نے جواب دیا: ’’نہیں ! یہ وجہ نہیں تھی،بلکہ حکمرانوں کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ عبداﷲ غزنوی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور روز بروز ان کے مریدوں کی تعداد میں اضافہ کہیں حکومت کا تختہ نہ الٹا دے۔‘‘ جسٹس منیر احمد نے پھر سوال کیا: ’’کیا آپ ایسے شخص کو مشرک نہیں کہتے جو ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شَیْئًا لِلّٰہ‘‘ کہتا ہے؟‘‘ مولانا نے فوراً جواب دیا: ’’ہر گز نہیں ! آپ بھی تو اب یہ جملہ کہہ رہے ہیں،کیا آپ کو مشرک کہہ دیا جائے گا؟ اس کا تو کہنے والے کی نیت پر دار و مدار ہے۔‘‘ یہ سن کر جسٹس منیر کہنے لگے: ’’مولانا میرے اختیار میں نہیں ہے،ورنہ میں آپ کو وکالت کا لائسنس جاری کر دوں۔‘‘ (منیر انکوائری رپورٹ) مولانا غزنوی کے انتقال سے چند ماہ قبل موچی دروازہ لاہور میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی جو عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی تھی،اس کی ایک رات کی نشست میں آغا شورش کاشمیری کی تقریر تھی۔رات کی یہ نشست بڑی بارونق اور بھرپور تھی۔اونچے اور خوب صورت اسٹیج کے دائیں جانب مولانا سید محمد داود غزنوی اور بائیں جانب مولانا سید ابوبکر غزنوی تشریف فرما تھے۔دونوں کے درمیان شعلہ بار مقرر آغا شورش کاشمیری نے خطاب کا کچھ اس طرح آغاز کیا: ’’میرے ایک طرف علم و عمل کے بلند آہنگ عالمِ دین اور دوسری طرف فکر و دانش اور علم و ادب کے شاہ سوار مولانا غزنوی کے فرزندِ ارجمند سید ابوبکر غزنوی تشریف فرما ہیں،جبکہ میرے پیچھے وقت کے جلیل القدر علمائے کرام براجمان ہیں،میرے ذمے یہ موضوع لگایا گیا ہے کہ ’’حالاتِ حاضرہ میں علمائے کرام کی ذمے داریاں کیا ہیں ؟‘‘ میں حیران
Flag Counter