Maktaba Wahhabi

62 - 402
قبول کر لیا،لیکن توحید و سنت کی تبلیغ و اشاعت کو نہ چھوڑا۔مولانا محمد علی جوہر کی رباعی ہے ع کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے 1953ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کے اختتام پر قادیانیت کا مسئلہ عدالتِ عالیہ میں چلا گیا اور جسٹس منیر پر مشتمل انکوائری کمیشن قائم کیا گیا۔مرکزی مجلسِ عمل نے مقدمے کی پیروی کے لیے حسین شہید سہروردی جیسے زیرک اور عالی دماغ شخص کو وکیل کیا جو بعد میں ملک کے وزیرِ اعظم بھی رہے۔ عدالت کا موقف تھا کہ قادیانی بھی اسی طرح اسلام کا ایک فرقہ ہے،جس طرح دیگر فرقے احناف،شیعہ اور اہلِ حدیث ہیں اور وہ ایک دوسرے کی مخالفت و تردید کرتے ہیں،جب کہ مجلسِ عمل قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج تصور کرتی تھی،بلکہ یہ مطالبہ کرتی تھی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ مسٹر سہروردی،جسٹس منیر کے پیچیدہ سوالات کی تاب نہ لا سکے۔انھوں نے مقدمے کی پیروی سے معذرت کر لی۔مجلسِ عمل کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمد داود غزنوی نے رفقا سے کہا کہ کسی مزید وکیل کی ضرورت نہیں،میں خود مقدمے کی پیروی کروں گا۔ چنانچہ کئی روز ٹرائل جاری رہا۔ایک دن جسٹس منیر نے کہا: ’’کیا آپ کے دادا عبداﷲ غزنوی کو افغانستان سے اس لیے نہیں نکالا گیا تھا کہ وہ وہابی تھے؟‘‘ مولانا
Flag Counter