Maktaba Wahhabi

330 - 402
مسافت کے لیے واحد فضائی راستہ ہے۔‘‘ مولانا ابو الکلام اگرچہ تقسیم کی گفتگو میں آخر تک بادل نخواستہ شامل رہے،لیکن ان کے دل و دماغ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔اس موضوع پر آج کل مولانا کے بارے میں بہت سے شواہد اخبارات میں آ رہے ہیں۔تقسیمِ ہند ایک سیاسی مسئلہ تھا،جس پر اختلاف رائے ہوئی،لیکن بعض لوگ اختلاف رکھنے والوں کو آج تک بھی معاف کرنے کو تیار نہیں اور کسی نہ کسی انداز میں انھیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کے موقع پر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو ہمارے کرم فرما مولانا عبیداﷲ احرار مرحوم نے بھی مجھے ’’آزادی ہند‘‘ (INDI رحمۃ اللہ علیہ E WIN E FREEDOM) کتاب عطا فرمائی اور کہا: اسے پڑھو! مولانا آزاد نے اس میں اپنی خداداد بصیرت اور سیاسی تجربات کے باعث تحریر کر دیا تھا کہ پچیس سال بعد پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ہمارے جو اکابر تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دے رہے تھے اور بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے دوش بدوش ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں ان کے ہمراہ جا کر تحریکِ پاکستان کو فروغ دے رہے تھے،جن میں مولانا امیر سیالکوٹی،مولانا داود غزنوی،لکھوی و ثنائی اور روپڑی بزرگ اور ان حضرات کے عقیدت مند اور نوجوان علما و صلحا کی بڑی تعداد پاکستان کے قیام کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے تو ان سب کے پیشِ نظر یہی مقصدِ وحید تھا کہ بقولِ قائد اعظم: ’’پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہو گا اور اس میں چودہ سو سال قبل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا نظامِ اسلام،جو ایک مکمل نظامِ حیات ہے،کا عملی نفاذ ہو گا۔اور ملک کے دونوں حصوں کو رشتۂ اسلام ہی متحد رکھ سکے گا۔‘‘
Flag Counter