Maktaba Wahhabi

316 - 402
حافظ عبدالحق صدیقی جیسے نوجوان علما ہر جلسے اور جلوس میں پیش پیش تھے،جو اپنی تقریروں سے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا نہ ہونے دیتے۔جہاں بے شمار علما و تجار نے شہادت کا جام نوش کیا،ان میں مولانا امرتسری کا اکلوتا بیٹا بھی تھا۔ امرتسر کی تحصیل ترن تارن میں جامع اہلِ حدیث کے خطیب مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح تھے،جنھوں نے اپنی ولولہ انگیز خطابت سے سکھوں کے اس مقدس شہر میں عوام کا وقار قائم رکھا،ان کے رضاکاروں میں حاجی محمد ابراہیم انصاری (والدِ مرحوم بیرسٹر عثمان ابراہیم انصاری،گوجرانوالہ)،حاجی فیروز دین و حاجی خدا بخش صرافاں شامل تھے۔تحصیل کے دیہی مقامات جنڈیالہ،ویرووال اور باقی پور وغیرہ میں مولانا محمد رفیق خان پسروری (والد مرحوم رانا محمد شفیق پسروری)،مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف اور شیخ الحدیث مولانا محمد عبداﷲ ویرووالوی نے حصولِ آزادی کی اس کٹھن راہ میں بھرپور کام کیا۔مولانا محمد رفیق پسروری تو سکھوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں شدید زخمی ہوئے،جس میں ان کا ایک بازو شہید ہو گیا تھا۔تحصیل ترن تارن ہی میں مولانا محمد ابراہیم باقی پوری،مولانا محمد یحییٰ حافظ آبادی اور مولانا حکیم محمد ابراہیم (والدِ مرحوم حافظ محمد اسماعیل اسد حافظ آباد) تحریکِ پاکستان میں ہر پروگرام کا ہراول دستہ بنے ہوتے تھے،بلکہ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان نوجوان رعنا علما کے جوش و خروش اور مجاہدانہ کردار سے سکھ کانپ کانپ جاتے تھے۔ ترن تارن سے چند میلوں کی مسافت پر بجانب قصور تیسرا ریلوے اسٹیشن ہمارا شہر پٹی تھا،جہاں مولانا سید عبدالرحمان شاہ (والد مرحوم سید عبدالغفور شاہ کھڈیاں ) اور شیخ الحدیث حافظ حکیم محمد احمد (والد مرحوم حکیم حافظ عبداﷲ پٹوی جھال خانوآنہ فیصل آباد) کی راہنمائی میں میاں عبدالستار (سرگودھا)،میاں محمد عالم ناظمِ تعمیرات اول جامعہ
Flag Counter