Maktaba Wahhabi

282 - 402
اس سردی میں بس سمجھ لیجیے کہ مچھلی ہی ٹھیک رہے گی۔‘‘ حافظ صاحب کی اس عجیب گردان پر احباب کی مسرت انگیز اور خوش کن ہنسی دیدنی تھی۔ مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑی میدانِ خطابت کے شہسوار،شیریں بیان مقرر مگر متین و فہیم اور سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔کبھی کبھار تقریر کے دوران میں چھوٹے چھوٹے لطیفوں کی بھرمار کر دیتے،جن میں احوال و حوادث پر خوب تبصرہ ہوتا۔ ایک دفعہ ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ختمِ قرآن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ایک لطیفہ یوں بیان کیا کہ ایک میراثی جس نے کوئی روزہ نہ رکھا تھا،لیکن عید کے روز سب سے پہلے سویاں پکائے بیٹھا تھا۔کسی نے کہا: بھئی! تم نے روزہ تو ایک بھی نہیں رکھا اور سویوں پر سب سے پہلے بیٹھے ہو؟ وہ جواب میں کہنے لگا کہ کیا خیال ہے،اب کافر ہو کر ہی مروں ! حافظ صاحب علیہ الرحمہ ایک دفعہ سنانے لگے کہ شدید گرمی کا موسم تھا اور اوپر سے ماہِ رمضان المبارک بھی! ایک میراثی کو اڑوس پڑوس والے روزہ رکھنے کے لیے کہتے،مگر وہ روزہ نہ رکھنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ بیان کر دیتا۔لوگوں کے مجبور کرنے پر ایک دن اس نے روزہ رکھ لیا۔افطاری کے وقت لوگوں نے کہا کہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے،دعا کر لو۔وہ ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کرنے لگا کہ اے اﷲ کل کو عید ہو جائے! کوئی زمانہ تھا کہ مولانا علی محمد صمصام کی شرکت کے بغیر جلسہ ناکام سمجھا جاتا تھا۔ہفتہ بھر کی کوئی رات شاید ہی خالی ہوتی۔روزانہ کہیں نہ کہیں ان کی تقریر کا پروگرام ہوتا۔ستیانہ بنگلہ کے قریب چک 36 میں اُن کی رہایش تھی،وہاں
Flag Counter