Maktaba Wahhabi

269 - 402
پون گھنٹا وقت تھا۔اجلاس کی کارروائی چونکہ اردو میں چل رہی تھی،مولانا محمد صدیق نے بھی اردو زبان میں تقریر شروع کر دی،لیکن اردو پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے پنجابی اور اردو کے ملے جلے الفاظ بولتے چلے جا رہے تھے،جس سے اسٹیج پر تشریف فرما قائدین اور پنڈال کے اکثر سامعین بدمزہ ہو رہے تھے۔مولانا محمد صدیق بھی پریشان اور پسینے میں شرابور تھے،انھوں نے آدھ گھنٹے میں تقریر ختم کر دی۔ کانفرنس کے صدر استقبالیہ حافظ بشیر احمد،مولانا فضل الرحمان بن محمد حفظہ اللہ کے بڑے بھائی کی کوٹھی میں علما کا قیام و طعام تھا۔نمازِ ظہر کے بعد کھانے پر مولانا محمد صدیق حیرانی سے مولانا محمد حنیف ندوی سے کہنے لگے کہ سبھی مقررین اور آپ نے بھی اردو میں تقریر کی،میں بھی اردو میں تقریر کر رہا تھا،لیکن لوگ عدمِ دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے،آخر میرے اور آپ کی اردو میں کیا فرق ہے؟ مولانا ندوی نے برجستہ فرمایا: ’’بھئی! یہی جو میری اور آپ کی اردو میں فرق ہے۔‘‘ پچھلے دنوں ہمارے دیرینہ فاضل دوست مولانا محمد اسحاق بھٹی نے بتایا کہ جب میں نے گوجرانوالہ میں ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت سنبھالی تو ایک روز مولانا محمد حنیف ندوی مجھے لاہور لے آئے اور روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کے دفتر میں اخبار کے ایڈیٹر مولانا عبدالمجید سالک سے ملاقات کرائی۔میرا تعارف کراتے ہوئے مولانا ندوی نے ’’الاعتصام کا پرچہ مولانا سالک کو دیا اور میرے بارے میں تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ اس کے مدیر ہیں۔مولانا سالک نے کہا کہ ’’یہ تو ہوا ’’الاعتصام‘‘ اور میری ڈاڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ہوئی ’’حبل اﷲ‘‘ (مولانا عبدالمجید سالک خود کلین شیو تھے)۔ بھٹی صاحب نے ایک اور واقعہ سنایا کہ ہمارے اسلاف حساب و کتاب اور خرچ
Flag Counter