Maktaba Wahhabi

208 - 402
ہوتی۔امیر محترم علامہ ساجد میر کے وہ قریبی اور مخلص رفقا میں سے تھے۔کہتے ہیں کہ ’’یادیں کبھی محو نہیں ہوتیں،بس اوجھل ہو جاتی ہیں۔‘‘ گوجرانوالہ میں سرکاری اور غیر سرکاری،نیز تمام مکاتبِ فکر کے اہم مشترکہ پروگراموں میں ان کا نمایاں کردار ہوتا،اس سلسلے میں ان میں کوئی مداہنت یا مصلحت آڑے نہ آتی۔مسلک کی بھرپور اور کھلم کھلا نمایندگی کا کمال حق ادا کرنا ان کا فرضِ اولین ہوتا۔فیصل آباد میں منٹگمری بازار کی سالانہ عظیم الشان خلافتِ راشدہ کانفرنس اور جامع اہلِ حدیث امین پور بازار کی سالانہ سیرت کانفرنس میں کئی مرتبہ ان کی شعلہ نوا تقریروں سے سامعین محظوظ ہوئے۔جامعہ سلفیہ میں بحیثیت مرکزی ناظمِ تعلیمات جب بھی وہ تشریف لاتے،طلبا کو تربیتی انداز میں خطاب فرماتے اور جماعت کے مرحوم اکابر کے تذکرے سے طلبا میں ایک ولولہ پیدا کر دیتے۔ مولانا بلاشبہہ ہمہ صفات شخصیت تھے،جن کی تدریسی و تبلیغی اور مرکزی سطح کی خدماتِ جلیلہ کی تفصیلات کے لیے ایک مستقل کتاب چاہیے۔خطابت و تعلیمات کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ جماعتی رسائل میں ان کے معلوماتی مضامین اکثر شائع ہوتے رہتے،جنھیں وہ افادۂ عام کے لیے پمفلٹ کی شکل دے دیتے۔اہم اور وقت کے ضروری احوال و مسائل پر ان کے تحقیقی مقالے اگر یکجا کر دیے جائیں تو وہ نوجوان علما کے لیے انتہائی سبق آموز ثابت ہو سکتے ہیں۔ہمیں توقع ہے کہ ان کے لائق بیٹے اور شاگردوں کا وسیع حلقہ اس کام پر ضرور توجہ دے گا۔تحریکِ ختمِ نبوت اور تحریکِ نظامِ مصطفی میں ان کا مقامی طور پر امتیازی رول ایک علاحدہ باب ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے مولانا محمد اعظم علیہ الرحمہ فالج کے حملے سے وہ پہلی سی قوت و توانائی تو نہ رکھتے تھے،تاہم مسلک کی تبلیغ و دعوت کی والہانہ تڑپ اور اس سلسلے
Flag Counter